دوست

اس سے جب کہتا ہوں میں
میرا ایک
ننھا منا دوست ہے
پوچھتا ہے کون ہے
سامنے کی دانت اس کے
آٹھ
سب شفاف موتی
مشعلیں
اس کی شریر پر آنکھوں میں روشن
لب پہ اس کے
نت نئے تازہ حسیں الفاظ
شاعر اولیں شاعر
طلسماتی زباں کا اولیں شاعر
وہ شیروں ہاتھیوں گینڈوں
سنہری بطخوں کی بندروں کی حمد گاتا ہے
کھلونا گاڑیوں میں
شہر کی مصروف سڑکوں پر
مجھے اور ماں کو امی اور ابا کو گھماتا ہے
مری باتوں پہ میرا ننھا منا دوست ہنستا چہچہاتا ہے
میں ننھا دوست ہوں
میں ہی وہ ننھا دوست ہوں
میں دوست ہوں
میں دوست ہوں


میں پوچھتا ہوں میرا ننھا دوست


مجھ سے پیار کرتا ہے تو کتنا پیار کرتا ہے
وہ بازو کھولتا ہے اور زمین و آسماں
ان میں چھپا کر مجھ سے کہتا ہے
بہت کرتا ہوں اتنا ڈھیر سا اتنا بہت کرتا ہوں
گھوڑا رک گیا
میرا کبوتر اڑ گیا
چڑیا جو دانہ کھا گئی
وہ میں بھی کھاؤں گا
گلہری سو نہ جائے اور بندر
ان کو میں بسکٹ کھلاؤں گا
مجھے طوطا دکھاؤ
سبز چونچ اور سرخ طوطا
ریچھ کتا بھیڑیا بلی کا بچہ
ان کی تصویریں کہاں ہیں
آج ان کے پاس جاوں گا
انہیں میں ان کی تصویریں دکھاؤں گا