دو گھڑی ان کے ہاں گزار آئے

دو گھڑی ان کے ہاں گزار آئے
عشق کی عاقبت سنوار آئے


ہر نفس اک نیا تصادم ہے
وقت ٹھہرے تو کچھ قرار آئے


کچھ تو ہو اہل دل کی دنیا میں
مے ملے یا کہیں بہار آئے


اپنا انجام زیست کیا ہوگا
ہم اگر موت کو بھی ہار آئے


تھک چکی ہے شعاع شمس کہن
روشنی کا نیا منار آئے


ہم ازل سے رواں تھے سوئے عدم
راہ میں اپنے ہی مزار آئے


ہر جگہ زیست کار فرما ہے
حشر تک موت کو پکار آئے


ٹھہرا رد عمل بھی ایک عمل
وقت لوٹے تو بار بار آئے