دن کے سینے پہ شام کا پتھر

دن کے سینے پہ شام کا پتھر
ایک پتھر پہ دوسرا پتھر


یہ سنا تھا کہ دیوتا ہے وہ
میرے حق ہی میں کیوں ہوا پتھر


دائرے بنتے اور مٹتے تھے
جھیل میں جب کبھی گرا پتھر


اب تو آباد ہے وہاں بستی
اب کہاں تیرے نام کا پتھر


ہو گئے منزلوں کے سب راہی
دے رہا ہے کسے صدا پتھر


سارے تارے زمیں پہ گر جاتے
زور سے میں جو پھینکتا پتھر


نام نے کام کر دکھایا ہے
سب نے دیکھا ہے تیرتا پتھر


تو اسے کیا اٹھائے گا عادلؔ
میرؔ تک سے نہ اٹھ سکا پتھر