دلا نہ اپنی محبت کا اعتبار مجھے
دلا نہ اپنی محبت کا اعتبار مجھے
خدا کے واسطے رہنے دے سوگوار مجھے
نہیں ہے منظر ہستی پہ اعتبار مجھے
مشیتوں نے دیا ہے دل فگار مجھے
ہر اک مقام پہ شاکی ہے آدمی کی نظر
نہ راس آیا تجسس کا کاروبار مجھے
فراق دوست کا غم ہو کہ ہو نشاط حیات
نہیں ہے اب کسی حالت پہ اعتبار مجھے
نگاہ شوق کو کیوں زحمت تکلم دوں
خزاں کا رنگ ہے پیراہن بہار مجھے
خلوص عشق کی توہین ہے نوائے الم
فغان شوق نہ کر اور شرمسار مجھے
جنون عشق کی نیرنگیاں معاذ اللہ
کیا بہار میں آزردۂ بہار مجھے