دل میں پہلے تو کھٹکتا نہ تھا ارماں کوئی

دل میں پہلے تو کھٹکتا نہ تھا ارماں کوئی
رہ گیا ٹوٹ کے شاید ترا پیکاں کوئی


آئے آئے رخ روشن کو چھپائے آئے
آئے بکھرائے ہوئے زلف پریشاں کوئی


وہ یہ کہتے ہیں مری جان رہے یا نہ رہے
وصل کی رات ہے رہ جائے نہ ارماں کوئی


دل رہا سینے میں جب تک رہی مرنے کی دعا
اب یہ رونا ہے نہیں زیست کا ساماں کوئی


سوئے جب قبر میں آرام سے تب ہم سمجھے
زندگی تھی کہ یہ تھا خواب پریشاں کوئی


لوٹ جاتی ہے وہیں پاؤں پہ آ کر بجلی
چلتے چلتے جو اٹھا لیتا ہے داماں کوئی


یہ تو میں کہہ نہیں سکتا کہ وہ دشمن ہوگا
ان کی محفل سے اٹھا ہو کے پشیماں کوئی


جس طرح غم زدہ صفدرؔ کا جنازہ نکلا
یوں بھی نکلا تھا کبھی غیر کا ارماں کوئی