دل میں جو آئے اچھا برا کہہ لیا کرو

دل میں جو آئے اچھا برا کہہ لیا کرو
تم بھی کسی سے اپنی خطا کہہ لیا کرو


دو آنکھیں اب بھی دیکھتی ہیں راستہ ترا
جا کر کبھی سلام دعا کہہ لیا کرو


بدلا ہوا ہے عشق کا دستور میری جاں
ہر سنگ دل کو جان وفا کہہ لیا کرو


دلبر سے دل کی بات چھپانا گناہ ہے
جس دن ہو خوش گوار فضا کہہ لیا کرو


کیوں دوسروں کے سامنے رکھتے ہو اپنی بات
سنتا ہے سب کی بات خدا کہہ لیا کرو


مانا اب اپنے بیچ کہیں کچھ نہیں رہا
دل چاہے کچھ جو کہنا ذرا کہہ لیا کرو


رخشاںؔ غزل کی آبرو رکھنا بھی ہے کمال
سوجھے جو کچھ خیال نیا کہہ لیا کرو