دل میں ہے اک راز جو ہونٹوں تک آ سکتا نہیں
دل میں ہے اک راز جو ہونٹوں تک آ سکتا نہیں
یعنی میں جس حال میں بھی ہوں بتا سکتا نہیں
بے خودیٔ ذوق سجدہ نے یہ عالم کر دیا
سر تو سر اب تو نگاہیں بھی اٹھا سکتا نہیں
ہے رضائے دوست میں شامل جنون عشق بھی
چاہے کچھ کیجے مجھے تو ہوش آ سکتا نہیں
ان کے اک جلوے میں ہے محدود ان کے سامنے
میرا جو عالم دو عالم میں سما سکتا نہیں
ظاہر و باطن کی ہر تفریق ہی جاتی رہی
اب میں چاہوں بھی تو حال دل چھپا سکتا نہیں
ان کی مختاری بھی اک شان کرم ہے اور کیا
جو کسی سائل سے دامن تک چھڑا سکتا نہیں
کیفؔ اک خواب پریشاں ہے کسی محبوب کا
لیکن ایسا جس کو وہ خود بھی بھلا سکتا نہیں