دل دیوانہ کہ بھولے ہی سے گھر رہتا ہے

دل دیوانہ کہ بھولے ہی سے گھر رہتا ہے
ذکر کیوں اس کا مگر شام و سحر رہتا ہے


سینچتے رہیے اسے خون جگر سے اکثر
بے ثمر ورنہ تمنا کا شجر رہتا ہے


بستر شب پہ تڑپتے ہی گزر جائے مگر
دست امید میں دامان سحر رہتا ہے


زخم لگتے ہی رہے روح و بدن پر اتنے
نہیں معلوم کہ اب درد کدھر رہتا ہے


دشت الفت میں کڑی دھوپ کے سناٹے ہیں
ابر خوش رنگ نہ سائے کا گزر رہتا ہے


یوں ہی پر تولتے رہنا ہے اسیروں کو یہاں
قفس شوق کا در بند اگر رہتا ہے


دم بہ دم آتی ہے آواز جرس کی راہیؔ
کوئی تو مجھ میں ہے جو محو سفر رہتا ہے