اب زلیخا ہے یعقوب کی آہ میں (ردیف .. ے)
اب زلیخا ہے یعقوب کی آہ میں
میرے یوسف کبھی تو دکھائی بھی دے
خانہ دل سے موڑیں مہاریں اگر
تو مجھے اپنے غم سے رہائی بھی دے
میں تمنا کو کیسے لکھوں تیرگی
پھر یہ دل تیرگی کی دہائی بھی دے
حسن نظریں جھکائے ہوئے رو بہ رو
اس تماشے تلک پر رسائی بھی دے
رات مدت سے آنکھوں میں کٹتی ہوئی
اور چپ کے دروں سے سنائی بھی دے