دھنک رنگ
پہاڑی کے اس پار کوئی دھنک ہے نہیں ہے
دھنک کے سرے پر کوئی جادو نگری پرستاں خزانہ مرا منتظر ہے
نہیں ہے
مجھے کوئی دھوکا نہیں ہے
سمندر کے اس پار سے آنے والی ہواؤں میں کوئی سندیسہ نہیں ہے
اگر کچھ نہیں ہے تو ساری تگ و دو یہ امروز و فردا کے سب سلسلے کس لئے ہیں
افق سے پرے مرغزاروں کی آخر حدوں تک پہنچنے کی خواہش
سرابوں کے دھندلے ہیولوں کا پیچھا
یہ سب کس لئے ہے
کسی خواب کی کوئی صورت نہیں ہے
خوشی کوئی تحفہ نہیں جو کرسمس کی شب کوئی چپکے سے دے جائے گا
میں ایلس نہیں ہوں الف لیلوی شاہزادی نہیں ہوں
میں عذراؔ ہوں
اور میرے اور زندگی کے تعلق سے جو بھی ہے دنیا میں وہ اصلیت ہے
مری شاعری گیت سنگیت
سب دل کے موسم
چاہنے چاہے جانے کی خواہش میں رشتوں کی سنگینیاں
کچھ رفاقت کے انمول موتی
محبت کی شبنم میں ڈوبی ہوئی ادھ کھلی زرد کلیاں
بزرگوں سے پائی ہوئی سب مقدس دعائیں
زندگانی کی سب دھوپ چھاؤں
خزانہ ہے میرا
دھنک رنگ مجھ میں سمائے ہوئے ہیں