داستان زندگی لکھتے مگر رہنے دیا

داستان زندگی لکھتے مگر رہنے دیا
اس کے ہر کردار کو بس معتبر رہنے دیا


کوئی منزل کوئی مفروضہ نہ تھا پیش نظر
زیر پا اک رہگزر تھی رہ گزر رہنے دیا


دل کے ہر موسم نے بخشی دولت احساس و درد
صرف اس سرمائے کو زاد سفر رہنے دیا


ساتھ اک خوش باش لہجہ محفلوں میں لے کے آئے
دل کی ویرانی کو تنہا اپنے گھر رہنے دیا


شور کرتی بھاگتی دنیا میں شامل بھی رہے
ایک سر مدھم سا دل کے ساز پر رہنے دیا


وقت کے بہتے ہوئے دریا پہ کشتی ڈال کر
سارے اندیشوں سے خود کو بے خبر رہنے دیا


خود غرض تھوڑا سا ہونا بھی ضروری تھا مگر
تجربوں سے سیکھ کر بھی یہ ہنر رہنے دیا


ساری دنیا کے لئے ہر شب دعائے خیر کی
ذکر اپنی خواہشوں کا مختصر رہنے دیا


کیوں کوئی دیکھے ہمارے دل کی ساری مملکت
اک جھلک دکھلائی ہے اور بیشتر رہنے دیا


کون دامن گیر ہے اکثر یہ کرتا ہے سوال
کر تو سکتیں تھیں بہت کچھ تم مگر رہنے دیا