دیرینہ خواہشوں سے سجایا گیا مجھے
دیرینہ خواہشوں سے سجایا گیا مجھے
مقتل میں کس فریب سے لایا گیا مجھے
بار ثمر سے شاخ شجر جھک گئی تو کیا
میں بے ثمر تھا پھر بھی جھکایا گیا مجھے
سیارۂ زمیں ہے کہاں سوچتا ہوں میں
پاتال میں فلک سے گرایا گیا مجھے
میں نقش ہجر یار ہوں شب کی فصیل پر
جلتا ہوا چراغ بنایا گیا مجھے
لائے ہیں ریزہ ریزہ کسی آئنے کے پاس
میرا ہی جسم جیسے دکھایا گیا مجھے
پتھر میں جب گلاب مہکتے دکھا دئے
یہ معجزہ نہیں ہے بتایا گیا مجھے
چشموں کے پاس ہو کے بھی پیاسا ہوں میں ظفرؔ
ریگ رواں کا رقص دکھایا گیا مجھے