دیکھ کر وحشت نگاہوں کی زباں بے چین ہے

دیکھ کر وحشت نگاہوں کی زباں بے چین ہے
پھر سلگنے کو کوئی اک داستاں بے چین ہے


کالی راتوں کے سلیقے دن کو کیوں بھانے لگے
سوچ کر گم سم ہے دھرتی آسماں بے چین ہے


کاغذوں پر ہو گئے سارے خلاصے ہی مگر
کچھ تو ہے جو حاشیوں کے درمیاں بے چین ہے


جب سے سازش میں سمندر کی ہوا شامل ہوئی
کشتی ہے چپ چاپ سی اور بادباں بے چین ہے


بھید جب سرگوشیوں کا کھل کے آیا سامنے
شور وہ اٹھا ہے اپنا حکمراں بے چین ہے


ہجر کے موسم کی کچھ مت پوچھئے اف داستاں
میں یہاں بیتاب ہوں تو وہ وہاں بے چین ہے