بات رک رک کر بڑھی پھر ہچکیوں میں آ گئی

بات رک رک کر بڑھی پھر ہچکیوں میں آ گئی
فون پر جو ہو نہ پائی چٹھیوں میں آ گئی


صبح دو خاموشیوں کو چائے پیتے دیکھ کر
گنگنی سی دھوپ اتری پیالیوں میں آ گئی


ٹرین اوجھل ہو گئی اک ہاتھ ہلتا رہ گیا
وقت رخصت کی اداسی چوڑیوں میں آ گئی


ادھ کھلی رکھی رہی یوں ہی وہ ناول گود میں
اٹھ کے پنوں سے کہانی سسکیوں میں آ گئی


چار دن ہونے کو آئے کال اک آیا نہیں
چپی موبائل کی اب بے چینیوں میں آ گئی


باٹ جو ہے تھک گئی چھت پر کھڑی جب دوپہر
شام کی چادر لپیٹے کھڑکیوں میں آ گئی


رات نے یادوں کی ماچس سے نکالی تیلیاں
اور اک سگریٹ سلگی انگلیوں میں آ گئی