دسمبر کی آواز

دسمبر چیختا ہے جب رگوں میں
لطف سے عاری پریشاں محفلوں میں
مجھ کو وہ بدنام دشمن یاد آتا ہے
جو میرے خون کا پیاسا گلی سے جب گزرتا تھا
مرے اعصاب میں اک سنسنی سی دوڑ جاتی تھی
میں اس لمحے کی برہم آگ میں جلتا ہوا
محسوس کرتا تھا
میں زندہ ہوں مسلسل ہوں
میں زندہ ہوں مسلسل ہوں
وہ دشمن مر گیا
یا دوستوں آ آ ملا
میں سوچتا ہوں پوچھتا ہوں
کون بتلائے گا
میرے فکر اور احساس کی بے سمت رو
بہتی ہے روز و شب
دسمبر چیختا ہے اب
کہاں منزل کہاں منزل