درد سلگایا گیا آنچ بڑھا لی گئی ہے
درد سلگایا گیا آنچ بڑھا لی گئی ہے
جان ٹھٹھرے ہوئے رشتوں کی بچا لی گئی ہے
گھر کی دہلیز پہ لوٹا ہے پشیماں کوئی
دشت سب چھان لیے خاک اڑا لی گئی ہے
عین ممکن تھا چھلک جاتے ہمارے آنسو
ساعت غم بڑی ترکیب سے ٹالی گئی ہے
راستہ کر دیا ہموار کسی کا ہم نے
ایک دیوار انا تھی جو گرا لی گئی ہے
راس آئی نہ کبھی گوشہ نشینی نصرتؔ
بارہا یوں مری تنہائی کھنگالی گئی ہے