درد کی کمی کا کرب

صبح کی سیر کے دوران راستے میں روزانہ ہی اظہار الدین کی نگاہیں ایک پر کشش معمر خاتون پر پڑتیں۔ اس خاتون کے ایک ہاتھ میں ایک پٹّا ہوتا ہے اور اس پٹیّ سے بندھا ایک کتّا۔
کتّے کے کسے ہوئے سڈول اور چھریرے جسم پر ایک گرم کپڑے کی صدری چڑھی ہوتی جس کا رنگ ہر دوسرے تیسرے دن بدل جاتا ۔ کتّا سر سے پا تک صاف ستھرا چکنا اور پرکشش دکھتا تھا۔ وہ اس معمر خاتون کے ہمراہ اس طرح چلا کرتا جیسے کسی زمانے میں لکھنؤ کے شرفا چلا کرتے تھے۔
معمر خاتون کے دوسرے ہاتھ کی مٹھی کسی کسی موڑ پر کھل جاتی اور ان کی ہتھیلی سے رنگ برنگ کے خشک میوے جھانکنے لگتے ۔ مٹھّی کھولتے وقت ان کے منہ سے ایک مخصوص قسم کی آواز نکلتی۔ آواز پر کتّے کی گردن ہتھیلی کی طرف مڑجاتی اور اس کا منہ آہستہ آہستہ چلنے لگتا۔
کتے کے ڈیل ڈول، اس کی چکنی چمک دار کھال ، اس کے صاف ستھرے سڈول جسم ، پیٹھ پر پڑی گرم رنگین صدری اور میوے سے بھرا اس کا منہ دیکھ کر باربار اظہارالدین کی نظریں سڑک کے کناروں پر دوڑ جاتیں جہاں کچّی اور کنکر یلی زمین پر دبلے پتلے، مریل جسم ، دھنسے ہوئے پیٹ، باہر نکلی ہوئی ہڈیوں،ڈھیڈ کیچ سے سنی آنکھوں ، ناک سے لبوں تک بہتی پیلی رطوبت ، گالوں پر جگہ جگہ چپکی رینٹ ، گردن ، ہتھیلیوں ، ہاتھ پیروں اور دوسرے انگوں پر جمے میل کے چکتّے والے بچّے ، میلے کچیلے ، پھٹے پرانے ہلکے کپڑوں میں اپنے دونوں ہاتھوں سے سینے کودبائے ٹھٹھررہے ہوتے جسیے اپنے اندر گرمی بھررہے ہوں یا اندر کی حرارت کو باہر نکلنے سے روک رہے ہوں۔ اس وقت اظہارالدین کے جی میں آتا کہ کتّے کی پیٹھ سے صدری کھینچ کر کسی بچے کو پہنادیں اور معمر خاتون کی مٹھی سے میوے چھین کر فٹ پاتھ پر پڑے بچوں کی طرف اچھال دیں۔ ان کے جی میں یہ بھی آتا کہ وہ اس معمر خاتون سے کہیں کہ وہ فٹ پاتھ پر ٹھٹھرتے ہوئے بچوں میں سے کسی کو کیوں نہیں پال لیتیں۔ دونوں کی عاقبت سنور جائے گی۔ اظہار الدین کے دل میں اٹھی یہ بات ان کے لبوں تک تو نہ آسکی مگر دب بھی نہ سکی۔
ایک دن اس خاتون کو ایک بڑے سے گیٹ والے مکان میں داخل ہوتے ہوئے دیکھ کر اظہارالدین کے پاؤں ٹھٹھک گئے۔ اس گیٹ کے داہنی طرف کھمبے پر ایک تختی لگی تھی جس پر اردو میں ’’ خواب زار‘‘ لکھا تھا۔اردو رسم الخط میں لکھا ہوا اردو لفظ اس بڑے مکان بلکہ حویلی کہنا چاہیے ، کے لمبے چوڑے گیٹ پر اظہارالدین کو بہت اچھا لگا۔ اس اردو لفظ کی بدولت اس مکان اور مکان کی مکین سے انہیں آناً فاناًمیں اُنس سا ہوگیا۔
دوسرے دن اس خاتون پر نظر پڑتے ہی ان کے احترام میں اظہارالدین کا ہاتھ اٹھ گیا اور ساتھ ہی لبوں سے ایک لفظ ’’آداب‘‘ بھی اچھل پڑا۔
معمر خاتون نے اظہارالدین کی طرف چند ثانیے کے لیے غور سے دیکھا اور جواب میں بہت ہی بے دلی سے ’’آداب‘‘ پھینک کر آگے بڑھ گئیں۔
دوسرے دن اظہارالدین کے ’’آداب‘‘ میں ’’کیسی ہیں ؟‘‘ کا فقرہ بھی جڑگیا۔ جواب میں اُدھر سے فائن ، تھینک یو! تو نکلا مگر ان لفظوں میں وہ بات اظہارالدین کو محسوس نہیں ہوئی جس کی وہ توقع کررہے تھے۔
اظہارالدین کے روز روز مزاج پوچھنے پر ایک دن معمر خاتون کے منہ سے بھی ایک جملہ نکل آیا ’’ آپ کیسے ہیں؟‘‘
اظہارالدین کو ان کے منہ سے یہ جملہ سن کر بہت اچھا لگا ۔ پھر باقاعدہ دونوں طرف سے کیسی ہیں اور کیسے ہیں ؟ کا سلسلہ چلنے لگا۔ ان جملوں نے انہیں کچھ قریب لادیا۔
’’ کل آپ نہیں آئیں ؟ ‘‘ اظہارالدین نے ایک دن ان سے پوچھا تو بولیں ۔
’’جی ، گلفام بیمارتھا۔‘‘
’’گلفام!اظہارالدین چونکے۔
’’میراڈوگ۔‘‘
’’او----کیا ہواتھااسے؟‘‘
’’یہی سیزنل ڈیزیز ، نزلہ زکام۔‘‘
’’اب کیسا ہے ؟‘‘
’’بہتر ہے ۔‘‘
’’آج اسے ٹہلانے نہیں لائیں؟‘‘
’’آج وہ ریسٹ کررہاہے ۔‘‘
’’گلفام بہت پیاراہے۔‘‘
’’تھینک یو۔‘‘
’’خداکرے وہ پوری طرح جلد سے جلد ٹھیک ہوجائے۔‘‘
اس جملے کی ادائیگی کے وقت پتا نہیں اظہارالدین کو کیوں ایسا محسوس ہواجیسے انہوں نے یہ کہا ہوکہ خدا کرے وہ جلد سے جلد مرجائے۔‘‘
’’تھینک یو،ویری مچ،چلتی ہوں ، گلفام کواسٹیم (Steam)دلواناہے۔‘‘ وہ تیز تیز ڈگ بھرتی ہوئی آگے بڑھ گئیں ۔
اظہارالدین کی آنکھیں انھیں دور تک دیکھتی رہیں ۔ ان کے اوجھل ہوتے ہی اظہارالدین کے دیدوں کے سامنے ایک منظر ابھر آیا۔
’’ بیٹے !آج چھٹی لے لو۔ تمہارے ابّو کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ ان کے سینے میں رہ رہ کر درد اٹھ رہا ہے ، خدانخواستہ دردزیادہ بڑھ گیا تو۔۔۔۔‘‘
’’امّی ! آپ خواہ مخواہ پریشان ہورہی ہیں ۔ گیس کی پرابلم ہے۔ دوا دے دی گئی ہے ۔ کچھ دیر میں اپنے آپ ٹھیک ہوجائیں گے۔ اور آپ تو ہیں ہی۔ میں رکا تومیرا بہت بڑا نقصان ہوجائیگا۔‘‘
یہ منظر اظہاراالدین کی آنکھوں کو گیلا کرگیا۔
معمر خاتون سے اظہارالدین کی بے تکلفی بڑھتی گئی۔ ایک دن وہ دونوں ساتھ ساتھ چل رہے تھے کہ ایک موڑ پر اظہارالدین کے منہ سے اچانک ایک جملہ نکل گیا۔کیا آپ کی نظریں کبھی ان پر نہیں پڑتیں؟‘‘
اظہارالدین کا اشارہ سمجھ کر وہ بولیں ۔
’’اب نہیں پڑتیں ۔‘‘
’’مطلب؟‘‘
’’ مطلب وہی جو میں نے بتایا۔‘‘
’’ اب‘‘ سے تو مطلب یہی نکلتا ہے کہ پہلے پڑتی تھیں۔‘‘
’’آپ نے صحیح مطلب نکالا ۔‘‘
’’ لیکن میری سمجھ میں پوری بات نہ آسکی ۔ براہِ کرم وضاحت کرنے کی زحمت گواراکریں۔‘‘ اظہارالدین نے وضاحت چاہی۔
’’آج نہیں ،آج سنڈے ہے ۔ جلدی گھر پہنچنا ہے۔ فزیوتھرپسٹ اور بیوٹیشن گلفام کا ویٹ کررہے ہوں گے ۔‘‘
’’گلفام کا ویٹ ! خیریت تو ہے؟‘‘ اظہارالدین نے تشویش کا اظہار کیا۔
’’دراصل آج گلفام کے مساج کا دن ہے۔ آج اسے اکسر سائز کرایا جاتا ہے ۔ اسے اسپیشل باتھ بھی کرایا جاتا ہے ۔ اسے سجایا سنوارا جاتا ہے ۔ آج وہ میرے ساتھ فن مارکیٹ جاتا ہے۔ فن مارکیٹ میں بہت ساری سجی سنوری بچیزBitchesآتی ہیں ۔ وہ گلفام کی طرف دیکھتی ہیں ۔ گلفام انہیں اچھالگتا ہے۔ان کا اس کی طرف دیکھنا اسے بھی اچھا لگتا ہے۔ اور یہ سب کچھ مجھے بھی بہت اچھالگتا ہے ۔ اس لیے آج نہیں ، کسی اور دن ۔ اچھا میں چلتی ہوں ۔ بائی! ‘‘
وہ گلفام کا پٹّاسنبھالے جلدی جلدی اپنے گھر کی طرف چل پڑیں ۔ اظہار الدین کافی دیر تک گلفام کی جانب دیکھتے رہے۔ وہ اور چست درست اور چکنا اور سڈول ہوتا گیا۔ گلفام کے تعاقب کے دوران بہت سارے مناظر اظہارالدین کی آنکھوں میں ابھرتے گئے۔ان میں ایک جانا پہچانا چہرہ بھی تھا۔ اس چہرے میں آنکھوں کے ارد گرد سیاہ ہالے بن گئے تھے ۔ رخساروں پر جھرّیاں پڑگئی تھیں۔دونوں آنکھوں کے نچلے حصّے سوجے ہوئے تھے جیسے ان میں تتیا نے اپنے ڈنک گڑودیے ہوں ۔ہونٹوں کے دونوں جانب ناک کے پاس سے ہوتی ہوئی دولکیریں ٹڈھی تک گہری ہوتی چلی گئی تھیں ۔
اس چہرے کے ابھرتے وقت اظہارالدین کے کانوں میں کچھ جملے بھی گونج پڑے تھے۔
’’جناب اب وقت آگیا ہے کہ مہینے میں ایک آدھ بار Facialکرالیا کریں ورنہ جھرّیاں گہری ہوتی جائیں گی اور گوشت لٹکتا چلا جائے گا اور۔۔۔۔۔‘‘
جب جب یہ جملے اظہارالدین کے کانوں میں گونجے تھے اور آنکھوں نے چہرے کو دیکھا تھا ،دل نے دماغ کو اکسایا تھا کہ مسلسل ڈھیلا ہونے والے چہرے کو کسنے کا جتن کیا جائے مگر دماغ نے دل کے سامنے اس چہرے کو لاکر کھڑاکردیا تھا جو اس شخص کے بیٹے کے خوابوں میں پل رہاتھا اور جس کو پروان چڑھانے کے لیے اسے بہت سارے جتن کرنے تھے۔
معمر خاتون کا جملہ کئی دنوں تک اظہارالدین کو پریشان کرتا رہا۔ ان کے تجسس کو بڑھاتا رہا ۔ وہ ان سے ملتی رہیں مگر اظہارالدین ان سے ان کے اجمالی جواب کی تفصیل نہ جان سکے کہ وہ جب بھی ملیں ، کوئی نہ کوئی ان کے ساتھ چلتا رہا یا وہ عجلت میں رہیں۔
ایک دن اتّفاق سے وہ اکیلی نظر آئیں اور ان کی رفتا میں ٹھہراؤ بھی دکھائی دیا تو لپک کر اظہارالدین ان کے ساتھ ہوگئے ۔ علیک سلیک کے بعد بغیر کسی تمہید کے وہ شروع ہوگئے۔
’’کیا میں اس دن کی ادھوری بات کو پوراکرنے کے لیے درخواست کرسکتا ہوں ؟‘‘
’’کون سے ادھوری بات ؟‘‘ وہ چونکیں۔
’’یہی کہ ان فٹ پاتھوں پر پہلے آپ کی نظریں پڑتی تھیں مگر ان ---------‘‘
’’اچھا ! یہ ۔ہاں ، یاد آیا ۔ بات یہ ہے مسٹر اظہار کہ فٹ پاتھوں پر پڑے ان لوگوں کے حالات مجھے بھی کبھی بہت بے چین کرتے تھے اور میں ان کے حالات کو بدلنے کی فکر بھی کیا کرتی تھی۔ ایک آدھ بار اس کے لیے میں نے ذاتی طور پر عملی اقدامات بھی کیے ۔ مثلاًایک کنبے کو پالا۔سڑک سے اٹھا کر انہیں اپنے بنگلے میں لائے۔ اپنے آؤٹ ہاؤس میں انہیں رہنے کی جگہ دی۔ ان کے لیے کپڑے بنوائے ۔ان کے کھانے پینے کا انتظام کیا۔ کافی دنوں تک ہم ان کو اپنے پیسوں سے پالتے رہے مگر ایک دن میں نے دیکھا کہ اس کنبے کی عورت نے میری جگہ لینے کی کوشش شروع کردی تھی اور اس کوشش میں مسلسل آگے بڑھتی جارہی تھی ۔ اس کے ہاتھ پاؤں جب بہت لمبے ہو گئے تو مجھے مجبوراً انہیں اپنے گھر سے نکالنا پڑا۔
ایک مرتبہ ایک بچے کو بھی پالا۔ اسے فٹ پاتھ سے اٹھاکر اپنے گھر میں رکھا۔ اسے اچھا کھلایا۔اچھا پلایا۔ اچھاپہنایا۔ اچھی طرح رکھابالکل اپنی اولاد کے موافق ۔اسے پڑھایا،لکھایا،بڑاکیا۔ اس کے لیے بہت کچھ سوچا بھی تھا۔کچھ منصوبے بھی بنائے تھے مگر ایک دن جب میں گھر سے کہیں باہر گئی ہوئی تھی تو وہ میرے شوہر کا گلا گھونٹ کر چلاگیا۔
معمر خاتون کی آنکھیں بھیگ گئیں ۔ لہجہ ڈبڈباگیا۔انہوں نے دوپٹّے کے پلو سے آنکھیں صاف کیں اور اپنی گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے بولیں ۔
’’دوسری طرف گلفام اور اس کی ماں ہیں ۔ گلفام کی ماں ہمارے پاس بہت دنوں تک رہی۔ ہمارے پاس ہی پیداہوئی اور پاس ہی مری۔ مگر جب تک زندہ رہی کبھی کسی دوسرے کتے سے نہیں لگی۔ وہ اسی وقت لگی جب ہم نے کتے کا انتظام کیا۔
اچانک کسی گھر کی چہاردیواری سے کوڑے کا ایک تھیلا راستے پر آکر گرا اور اس کے اندر کی چیزیں سڑک پر بکھر گئیں ۔ ان میں ہڈی کا ایک ٹکڑا بھی تھا۔اسے دیکھتے ہی فٹ پاتھ کے بچوں کی للچائی نظریں بکھرے ہوئے کوڑے کی طرف مرکوز ہوگئیں۔بعض بچے کوڑے کے اس تھیلے کی جانب دوڑ پڑے اور ان میں چھینا جھپٹی بھی شروع ہوگئی۔ مگر گلفام خاموشی سے چلتا رہا۔ اس ہڈی کی طرف ٹھیک سے اس نے دیکھا بھی نہیں۔
’’اور یہ گلفام بالکل اپنی ماں پر گیا ہے ۔ اسی کی طرح وفادار ، فرض شناس ۔اپنے مال پر جان چھڑکنے والا ۔ ایک بار یہ مجھے بچانے کی خاطر ایک بہت ہی خطر ناک دشمن سے بھڑ گیا۔ اور اس وقت تک لڑتا رہا جب تک کہ اسے کاٹ کر بھگا نہیں دیا۔ شاید اسی گلفام کی وجہ سے آج میں زندہ ہوں ورنہ۔۔۔۔۔۔ میں سمجھتی ہوں آپ کے سوال کا جواب آپ کو مل گیا ہوگا۔ اب میں چلوں ۔‘‘
’’وہ گلفام کے ساتھ آگے بڑھ گئیں ۔‘‘
اظہارالدین کی نظریں فٹ پاتھ کی جانب مرکوز ہوگئیں۔
انھیں وہاں کوئی بھی عورت نظر نہ آ سکی جس نے معمر خاتون سے ان کے شوہر کو چھیننے کی کوشش کی ہو۔وہاں کوئی بھی ایسا بچہ دکھائی نہیں دیا جس نے معمر خاتون کے شوہر کا گلا ریت آیا ہو مگر اس کے باوجود اس وقت ان میں اظہارالدین کو وہ کشش محسوس نہ ہوسکی جو کچھ دیر پہلے تک محسوس ہوتی رہی تھی۔ایک عجیب طرح کا دباؤان کے اندر در آیاتھا جو ان کے اس درد کو کم کرتا جارہاتھاجس نے اس معمر خاتون سے بے تکلف ہونے پر انھیں مجبور کیا تھا۔
اس درد کی کمی نے اظہارالدین کو پریشان کردیا۔اس رات کافی دیر تک انھیں نیندنہ آسکی ۔ درد کی کمی کا احساس دل کو کچوکے لگاتا رہا۔ اس احساس سے دل تلملاتا رہا۔ رگ و پے میں ا ضطراب گھلتا رہا۔
دماغ نے دل کو جب اس طرح سمجھایا:
معمر خاتون نے جو واقعات سنائے ممکن ہے وہ محض فسانے ہوں ۔ حقیقت سے ان کا تعلق ہو ہی نہیں ۔ انھوں نے اس لیے سنائے ہوں تاکہ فٹ پاتھ کے قابل رحم باشندوں کی طرف نہ دیکھنے کا جواز پیدا ہوسکے۔اور ان پر بے حسی یا بے رحمی کا الزام نہ عائد ہوسکے۔
اور مان لیں کہ وہ واقعات سچے بھی ہوں تب بھی قصوروار صرف وہ عورت اور وہ بچہ کہاں ٹھہرتے ہیں؟ ہوسکتا ہے قصور سراسر معمر خاتون کے شوہر کا ہو۔ اس نے ہی اس عورت کو اپنی طرف آنے کا لالچ دیا ہو۔ کھانا ، وہ بھی اچھا کھانا اگر بھوکے کو دعوت دے تو بھوکابے چارہ بھلا اپنے کو کب تک اور کیسے روک سکتا ہے؟
اسی طرح معمر خاتون کے شوہر کے قتل میں بھی ممکن ہے خود قتل ہونے والے کا ہاتھ ہو۔ وہ بچہ جسے انھوں نے فٹ پاتھ سے اٹھاکر اپنے گھر میں پالاتھا اور بقول معمر خاتون کے اسے اپنا پن اور پیار دیا تھا ، ممکن ہے وہ انھیں اپنا باپ تصور کرنے لگا ہو اور ایک باپ سے بیٹے کی جو توقعات ہوتی ہیں اس نے ان سے لگا رکھی ہوں اور ان کی تکمیل کے لیے اس نے باپ سے خواہش کی ہو اور خواہش کے اظہار میں ممکن ہے ضد بھی کی ہو مگر باپ اسے ایک ایسے فرد سے زیادہ نہ گردانتا ہو جس پر اس نے احسان کررکھا ہو اور اس بچے کی توقعات کی خواہش کا گلا اس نے گھونٹ دیا ہو۔اور ردّ عمل میں کوئی تکرار ہوئی ہو اور پھر تکرارنے سنگین صورت اختیار کرلی ہو۔
تو دماغ کی اس منطق نے لوری کا کام کیا اور اظہارالدین کو نیند آ گئی ۔ دوسرے دن حسبِ معمول وہ سیر کو نکلے تو معمر خاتون اور ان کے کتّے پر نظر پڑی۔ ان سے ہٹ کر فٹ پاتھ پر بھی نگاہیں مبذول ہوئیں مگر آج فٹٖ پاتھ پرپڑے مریل جسم کی پسلیاں ان کے اندر نہیں چبھیں ۔ ان جسموں کے پیٹ کا گڈھا اظہارالدین کو اپنے اندر نہیں اتارسکا۔ چہروں کی زردی ان کی آنکھوں میں نہ سماسکی ۔ بے لباس بدن کی کپکپاہٹ انھیں نہ لرزاسکی۔
معمر خاتون کے کتے کی صدری اتار کر کسی ننگے بچے کو پہنانے اور ان کی مٹھی سے میوے چھین کر فٹ پاتھ کی جانب اچھالنے کی خواہش بھی آج زور نہ مارسکی ۔ دماغ کی رات والی منطق بھی کام نہ آسکی ۔ اظہارالدین حیران و پریشان اپنے احساس کو کوستے ہوئے گھر واپس آگئے۔وہ کئی دنوں تک صبح کی سیر کو بھی نہ نکل سکے۔
وہ گھر میں گم سم رہنے لگے جیسے ان کو لقوہ مار گیا ہو۔ان کی اس کیفیت نے ان کی بیوی کو بھی پریشان کردیا۔ ایک دن بیوی ان کے قریب آکر بولی :
’’تم آج کل کھوئے کھوئے سے رہتے ہو ! کوئی بات ہوگئی ہے کیا؟‘‘
’’تم بھی تو آج کافی اداس لگ رہی ہو ، کسی نے پھر کچھ کہا کیا؟‘‘
جواب دینے کے بجائے اظہارالدین نے سوال کردیا۔
’’تم نے آج کی خبر پڑھی؟ ‘‘جواب میں بیوی نے سوال کیا۔
’’کون سی خبر ؟‘‘ اظہارا لدین چونکے۔
’’اچھا ، تو تم نے نہیں پڑھی؟‘‘
’’ بتاؤ تو سہی ، کون سی خبر ؟‘‘
’’ یہی کہ ایک بیٹے نے اپنے باپ کا گلا کاٹ دیا ‘‘۔
’’اچھا ! مگر کیوں؟ ‘‘ اظہارا لدین کی حیرانی اور بڑھ گئی۔
’’ بیٹا چاہ رہا تھا کہ باپ اپنی ساری زمین جائداد بیٹے کے نام کردے مگر باپ کا کہنا تھا کہ جلدی کیا ہے ۔ ہمارے بعد سب کچھ تو اسی کا ہے پھر لکھا پڑھی کی کیا ضرورت ہے؟‘‘
خبر سنا کر بیوی چپ ہو گئی۔
اظہا رالدین کے لبوں پر بھی خاموشی طاری ہو گئی ۔ دونوں دیر تک چپّی سادھے بیٹھے رہے جیسے دونوں کے گلے میں کسی نے سرمہ ڈال دیا ہو۔
اس رات وہ دونوں سو نہیں پائے۔
رات بھر اظہارالدین کے اوپر اضطرابی کیفیت طاری رہی ۔ صبح جب بہو نے ناشتہ لگایا اور پلیٹ کی ضرب سے آواز نکلی تو انھیں محسوس ہوا جیسے کسی نے پلیٹ ان کے سر پر دے مارا ہو۔
ناشتہ سے فارغ ہوکر وہ خاموشی سے مارکیٹ کی طرف نکل گئے اور ادھر ادھر گھومتے ہوئے جانوروں کی پینٹھ کی جانب جا پہنچے۔ بھیڑ بکریوں ، بلّیوں ،پرندوں کے جمگھٹوں کو دیکھتے ہوئے وہ اس کنارے تک پہنچ گئے جہاں سب سے زیادہ بھیڑ لگی تھی ۔ وہاں چمچماتی ہوئی آ ہنی زنجیروں میں رنگ برنگ کے کتے بندھے تھے۔ ان کتّوں کے کاروباری اپنے اپنے کتّوں کی نسل کی خوبیاں گنوارہے تھے:
’’کوئی کہہ رہا تھا ‘‘ یہ السسین ہے ۔ بہادری میں اس کا جواب نہیں ۔ دیکھیے اس کا قد و قامت۔ بالکل شیر لگتا ہے ۔ دشمن دور ہی سے ڈرجاتا ہے۔‘‘
’’کوئی بتا رہاتھا۔‘‘یہ ڈوبر مین ہے بڑے قد کا چھوٹے بالوں والا ڈوگ بہت ہی خطرناک اور نہایت چست و چوکنّا ۔ا س کے ہوتے ہوئے مجال ہے کہ کوئی گھر میں گھس آئے۔
کوئی اپنے کتّے کی تعریف کرتے ہوئے بول رہاتھا۔یہ ہاؤنڈ ہے ۔ یہ اس نسل کا کتّا ہے جو بوسوسنگھ کرشکار کرتا ہے ۔ دشمن اسے دیکھ کر یوں بھاگتے ہیں جیسے پولیس کو دیکھ کر چور۔
کوئی قصیدہ پڑھ رہاتھا۔’’یہ بل ڈاگ ہے مضبوط جسم ، بڑے سر اور نمایاں نچلے جبڑے والا کتّا جو کبھی انگلستا ن میں بیل کے شکار کے لیے پالا جاتا تھا۔ آج اس سے ہر طرح کا شکار کیا جا سکتا ہے۔‘‘
’’کوئی اپنے کتّے کابکھان کرتے ہوئے پھولے نہیں سما رہاتھا کہ یہ دیسی نسل کا کتّا ہے ۔ نہایت ہی وفادار اور جاں نثار ۔ اپنے مالک کی حفاظت کے لیے یہ اپنی جان تک کی پرواہ نہیں کرتا۔‘‘
اظہارالدین ایک ایک کتے کے متعلق ان کی خصوصیات سنتے اور ان کے سراپے کو دیکھتے رہے۔کافی دیر تک وہ اس بازار میں ٹہلتے رہے ۔ ان کا یہ ٹہلناصبح کی سیر سے مختلف تھا۔
آج کی رات بھی کرب و آلام میں کٹی۔ذہن میں طرح طرح کے خیالات ابھرتے اور ڈوبتے رہے۔طرح طرح کے منظر بنتے بگڑتے رہے ۔
دوسرے دن خلاف معمول صبح کی سیر کو وقت سے ذرا پہلے ہی نکل گئے۔دھیرے دھیرے ہوا خوری کرنے والوں کی تعداد بڑھتی رہی۔ دو‘ر سے معمر خاتون بھی نظر آگئیں۔معمر خاتون جب قریب پہنچی توان کے پاؤں یک بارگی ٹھٹک گئے۔ان کے ساتھ ان کا کتا بھی ٹھٹک گیا۔دونوں کی نظریں اظہارالدین کے داہنے ہاتھ کی جانب مرکوز ہوگئیں ۔
فٹ پاتھ کا ایک بچہ اظہار الدین کی انگلی پکڑے چل رہا تھا۔آج اظہارالدین کا چہرہ ہر طرح کے کرب اور تناؤسے خالی تھا۔
(مجموعہ پارکنگ ایریا ازغضنفر، ص 75)