درد دل کی دوا کرے کوئی
درد دل کی دوا کرے کوئی
یہ نہیں تو دعا کرے کوئی
آرزو ہے جفا کرے کوئی
ہو نہ یہ بھی تو کیا کرے کوئی
یہ اشارے ہیں کس قدر خاموش
ان کی تفسیر کیا کرے کوئی
جو بھی ہے دل کا حال ظاہر ہے
وہ نہ سمجھیں تو کیا کرے کوئی
عرض مطلب پہ بھی وہ برہم ہیں
کس طرح التجا کرے کوئی
اک زمانے سے دشمنی لے کر
کیوں کسی سے وفا کرے کوئی
بات تیری بجا ہے اے ناصح
دل نہ مانے تو کیا کرے کوئی
لب پہ آتی نہیں ہے دل کی بات
میرا مطلب ادا کرے کوئی
ضبط غم شیوۂ محبت ہے
کیوں جفا کا گلہ کرے کوئی
جس کو بھی دیکھیے وہ ہے بے مہر
کیا کسی سے گلہ کرے کوئی
وہ خود اپنی جفا پہ نادم ہیں
ان سے اب کیا گلہ کرے کوئی
میری جان حزیں ہے مشکل میں
آ ہی جائے خدا کرے کوئی
دل ناداں کے سو تقاضے ہیں
بے بسی ہو تو کیا کرے کوئی
اے کنولؔ اب یہی تمنا ہے
ہم سے عہد وفا کرے کوئی