اکثر ایسا ہوتا ہے

بیتے موسم کی خوشبو سے
مہکے تتلی لمحے
خشک لبوں کو چھو لیتے ہیں ساری کڑواہٹ تن من کی
ایک غزل ہو جاتی ہے
کبھی کہیں کوئی سچی بانی کوئی دیپک سا لہجہ
مدھم سر میں ڈھلتا ہے
اکثر ایسا ہوتا ہے
ڈھول پیٹتے لفظ نہ جانے کیسے گم ہو جاتے ہیں
ایک سریلی سی شہنائی
پریم سدھا بن جاتی ہے
اکثر ایسا ہوتا ہے