داشتہ

رات دھندلی تیرگی نمناک گھاس
ٹھہری ٹھہری مضمحل پھولوں کی باس
تنہا اداس
باغ کی دل سرد خاموشی سے دور
ان گنت تاروں کا بے ترتیب نور
سامان طور
اٹھ رہی ہے جیسے موج نیم تاب
کہکشاں یہ بارہا دیکھا سراب
منزل کا خواب
پھول کر اپنی تمنا کا مآل
گوشۂ دل میں وہی زہرہ جمال
لایا خیال
جس نے وا کی مجھ پہ چشم التفات
مجھ کو سمجھا اپنی ساری کائنات
ہر تلخ رات
آج اس کی دل کشی پٹتی لکیر
اس کی بڑھتی تیرگی کا ہم سفیر
میرا ضمیر
دیکھتا ہوں پھر نجوم خوش خرام
جانے کب تک لے گا مجھ سے انتقام
یہ حسن بام