دامان آرزو کے کنارے سمیٹتے

دامان آرزو کے کنارے سمیٹتے
ملتا ہے کب کسی کو وہ سب کچھ جو چاہیے


ہوتے ہیں کچھ شرر بھی چھپے راکھ میں کہیں
ہے دیکھنے میں سرد سنبھل کر کریدیے


سب روشنی کے پھول تو کھلتے ہی بجھ گئے
کڑوا دھواں اب آنکھوں سے رو رو نکالیے


مشکل پسند اپنی طبیعت ہے کیا کریں
چن چن کے خار راہوں میں خود ہم نے دھر دئے


ملتا ہے سرد روئی سے مہ تند خو ہے مہر
اپنے لئے کرن کوئی اب کس سے مانگیے


حسرت سے سوئے در یہ تکے جانا تا بکے
ان تھک کے چور آنکھوں کو اب سونے دیجئے


قندیل میں شگوفوں کے جلنے لگی ہوا
روشن ہیں شاخ شاخ پہ خوشبو بھرے دیے


ہاں مل لئے تھے اس سے کہیں اتفاق سے
دنیا نے کیسے کیسے فسانے بنا لیے


بلقیسؔ لیجے ہوش کے ناخن بہت ہوا
جذبات کو شعور کی حد دے کے روکئے