سائیبر اسپیس

شتابدی اکسپریس،سوپرفاسٹ میل،پسنجرٹرین،بس،بدئبیت،بے ہنگم،بدبودار دھواں چھوڑتی اور پھٹپھٹ کرتی میٹاڈور،ہچکولے کھاتی رکشا اور تنگ وپرخارپیدل کا سفرطے کرکے وہ اس بستی میں داخل ہوا۔
دھنداوردھول سے اٹی بے جان اورسنسان بستی کو دیکھتے ہی جیتی جاگتی جگمگاتی شہری آبادی کا ایک پرُنور منظر اس کی آنکھوں میں جھلملااُٹھا۔
کچھ دیرتک آنکھ مچولی کھیلتے کھیلتے دونوں منظروں میں سے روشن منظر کہیں چھپ گیا اور سیاہ منظر اپنی آنکھیں کھول کرسامنے کھڑاہوگیا۔اسے محسوس ہواجیسے وہ کسی جزیرے میں پہنچ گیا ہے۔اس کے اردگرد بہت سارے لوگ جمع ہوچکے تھے۔اوراسے وہ اس طرح دیکھ رہے تھے جیسے ان کی نگری میں کسی نئی دنیاکی کوئی مخلوق آگئی ہو۔
وہ وہاں کی ایک ایک چیز کوحیرت واستعجاب سے دیکھتا اورپوچھ تا چھ کرتاہوااس بستی کے اُس آدمی کے پاس پہنچ گیاجس سے اس کے مشن میں رہنمائی ملنے والی تھی۔
’’تمہارا ہی نام چورسیا ہے؟‘‘اس نے اس آدمی کو سرسے پاتک گھورتے ہوئے پوچھا۔
’’جی صاحب!‘‘
’’تم پڑھے لکھے ہو؟‘‘
’’تھوڑاتھوڑا۔‘‘
’’کہاں پڑھا؟‘‘
’’آپ ہی جیسا ایک صاحب گھرکے کام کاج کے لیے مجھے اپنے ساتھ لے گیاتھا، وہیں۔‘‘
’’کتنے دنوں تک رہے؟‘‘
’’کافی دنوں تک ‘‘
’’چلے کیوں آئے؟‘‘
’’صاحب کہیں دورچلاگیا اورگھروالوں کی یادبھی آنے لگی۔اس لیے۔‘‘
’’یہاں کیاکرتے ہو؟‘‘
’’کام۔‘‘
’’کیسا کام؟‘‘
’’محنت مزدوری کاکام۔‘‘
’’میں تمہارے پاس ایک ضروری کام سے آیاہوں۔‘‘
’’مجھ سے کیا کام ہے صاحب؟‘‘چورسیا نے چونکتے ہوئے پوچھا۔
’’مجھے تمہاری مدد چاہیے۔‘‘
’’میری مدد!‘‘اس کی حیرت اور بڑھ گئی۔‘‘
’’ہاں تمہاری مدد۔‘‘
’’کیسی مددصاحب؟‘‘
’’میں یہاں کے لوگوں کے جیون پرکچھ لکھنا چاہتا ہوں۔‘‘
یہ سنتے ہی چورسیا کے ذہن میں کسی کتاب کا ایک صفحہ کھل گیا۔’’گائے ایک چوپایا جانور ہے۔اس کی دوآنکھیں ہوتی ہیں۔دوکان اور دوسینگ ہوتے ہیں ۔ایک ناک اورایک پونچھ ہوتی ہے۔ وہ اجلے ،کالے بھورے اورچتکبرے رنگ کی ہوتی ہے۔گائے دودھ دیتی ہے۔ اس کے دودھ سے دہی جمتاہے۔مکھن نکلتا ہے۔ گھی ملتا ہے۔ وہ سال میں ایک باربچھڑادیتی ہے۔ اس کابچھڑا بڑا ہوکربیل بنتا ہے۔بیل بوجھ ڈھوتاہے۔گائے کی کھال سے جوتے اوربیگ بنتے ہیں۔ اس کی چربی اور ہڈی سے طرح طرح کی وستوئیں بنائی جاتی ہیں۔‘‘
’’صاحب !میں جانتاہوںآپ کیالکھیں گے؟‘‘
’’کیاکہا؟تم جانتے ہو کہ میں کیالکھوں گا؟‘‘وہ چونک کرچورسیا کی طرف دیکھنے لگا۔
’’جی صاحب۔‘‘
’’اچھّا توبتاؤ کہ میں کیالکھوں گا؟‘‘
’’آپ لکھیں گے کہ چندن باڑی کے لوگ ناٹے اورکالے ہوتے ہیں۔ ان کا شریر گندا ہوتاہے۔ دانت پیلے ہوتے ہیں۔آنکھوں میں کیچڑ بھرارہتاہے۔ان کے گال پچکے ہوئے ہوتے ہیں اور چھاتی کی ہڈیاں باہرنکلی ہوتی ہیں۔وہ باجرے کی روٹی،اول کا بھرتا،موٹے چاول کا بھات اورکھساری کی دال کھاتے ہیں...................‘‘
’’میں لیکھ لکھنے نہیںآیاہوں۔‘‘
’’توکیالکھنے آئے ہیں صاحب؟‘‘
’’رچنا۔‘‘
’’رچنا معنی؟‘‘
رچنامعنی کویتااور..........
’’کویتا!سمجھا؟‘‘
سچی باتیں کہنا سیکھ


سب سے ہِل مِل رہنا سیکھ
سیدھی راہ پہ چلنا سیکھ


سب کا آدر کرنا سیکھ
طوفاں سے ٹکرا کر بھی


ہرپل آگے بڑھنا سیکھ


’’یہی ناصاحب۔‘‘
’’ایسی رچنا نہیں۔‘‘
’’توکیسی رچنا صاحب؟‘‘
’’ایسی رچنا جس میں یہاں کے لوگوں کا اصلی جیون سما جائے۔یہاں کی آتمااس میں پوری طرح رچ بس جائے۔‘‘چورسیاکی آنکھوں میں ساراگاؤں سمٹ آیا۔ایک ایک گھر،ایک ایک آنگن اُبھرگیا۔ایک ایک چہرہ اپنے دردوکرب کے ساتھ اس کے سامنے آکرکھڑاہوگیا۔
چورسیا کی آنکھیں جوبرسوں سے سوکھی پڑی تھیں ایک دم گیلی ہوگئیں۔
’’یہاں کی آتماآپ کودکھائی دے گی صاحب؟‘‘اس کی آوازبھی بھیگی ہوئی نکلی۔ ’’کیوں نہیں ،تم مددکروگے توضروردکھائی دے گی۔‘‘
’’ہم سے کیامددچاہیے صاحب؟‘‘
’’یہی کہ تم اپنے بھیتر کاحال بتاؤ۔اپنے لوگوں سے بات کراؤ۔اپنی عورتوں سے ملواؤ۔
’’عورتوں سے !‘‘چورسیا کی آوازکابھیگاپن یکایک غاب ہوگیا۔جیسے بھاپ بن کراُڑ گیاہو،وہ معنی خیزنظروں سے اسے دیکھنے لگا۔
’’چورسیا ،تم غلط سمجھے۔ دراصل میں یہاں کی عورتوں سے اس لیے ملناچاہتاہوں کہ ان کا حال میں ان کی زبان سے سن سکوں۔یہ جان سکوں کہ وہ کس طرح رہتی ہیں؟‘‘
’’معاف کرنا صاحب!میں نے سمجھا شاید.............پرصاحب!وہ اپنے بھیترکاحال آپ کو کیسے بتائیں گی جواپنے مردوں تک کونہیں بتاپاتیں۔‘‘
’’کیوں نہیں بتاپاتیں؟‘‘
’’یہ تووہی جانیں صاحب‘‘
’’تم لوگ کبھی پوچھتے نہیں؟‘‘
’’پوچھاتوتب جائے ناصاحب جب کوئی جاننا چاہے۔‘‘
توکیاسچ مچ تم لوگ جاننانہیں چاہتے؟‘‘اس کی حیرت بڑھ گئی۔
’’نہیں۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’ہمارااپنادُکھ کیاکم ہے کہ ہم ان کا دکھ جاننے کا پریاس کریں۔‘‘
’’سناہے تم لوگ اپنی عورتوں کومارتے بھی ہو؟‘‘
آپ نے ٹھیک سنا ہے صاحب۔‘‘
’’کیوں مارتے ہو؟‘‘
’’سچی بات بولوں صاحب۔‘‘
’’ہاں،بولو۔‘‘
’’وہ کمزورہیں اس لیے۔‘‘
’’مطلب؟‘‘
’’مطلب صاف ہے صاحب!مارتوکمزورہی پرپڑتی ہے نا۔چاہے بھگوان کی مارہو چاہے شیطان کی۔دُکھ اورمصیبت میں جب ہماراکوئی بس نہیں چلتاتوہم اپناغصّہ اپنی عورت پر نکالتے ہیں۔آپ ہی بتائیے صاحب ہم ا پنے بھیتر کی بھڑاس کس پرنکالیں۔ان پیڑوں پریااس دھرتی پر؟‘‘
چورسیاکی بات سن کر اس کی نظریں دھرتی پرمرکوز ہوگئیں۔اسے محسو س ہوا جیسے چورسیا نے کسی گہرے فلسفے کی طرف اشارہ کردیا ہو۔زمین سے انسان کے رشتے کی بہت ساری گتھیاں اُبھرتی چلی گئیں۔اس کاذہن دیرتک گتھیوں میں اُلجھا رہا۔کافی دیرتک خاموش رہنے کے بعد اس نے چورسیا کو پھرمخاطب کیا۔
’’اچھّایہ بتاؤ تم لوگ کس طرح زندگی گزارتے ہو؟‘‘
چورسیا اس سوال پرکچھ دیرسوچتا رہا۔بیچ بیچ میں اِدھر اُدھر دیکھتارہا۔پھرایک طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا۔
’’اُس طرح۔‘‘
اس کی نظریں اشارے کی طرف مڑگئیں۔
کچھ فاصلے پرکنکریلی زمین کے اوپرایک مریل بچّہ جس کا پیٹ ڈھول کی طرح پھولاہوا تھا۔چھاتی کی ہڈیاں باہرنکلی ہوئی تھیں۔بے سدھ پڑاتھااوراس کے پاس ہی ایک خارش زدہ پلّا لیٹاتھا۔دونوں کے اوپر مکھیاں بھن بھنارہی تھیں۔
اس کی نگاہیں بچّے اورپلے کے پاس سے لوٹ کردوبارہ چورسیا کے چہرے پرکوز ہوگئیں۔
چورسیا کی آنکھیں دیالونگاہوں کی گرمی سے پگھل کرموم کی طرح ٹپکنے لگیں۔ ایک کی آنکھیں خاموشی سے اپنادردبیان کرتی رہیں اور دوسری کی آنکھیں اسے دیرتک تکتی رہیں۔
’’تمہاری اِچھائیں کیاہیں؟‘‘اُس نے کافی دیربعد چورسیا سے دوسراسوال کیا۔
’’وقت پردوجون کی روٹی۔صاف پانی۔موسم سے بچانے والا کپڑا اور بچھاون والا بستر۔‘‘
’’بس۔‘‘
صاحب آپ نے’’بس‘‘کیوں کہا؟
’’بس نہ کہوں تواورکیاکہوں؟‘‘تم نے جوگنوائی ہیں یہ اِچھائیں تھوڑی ہی ہیں۔
’’یہِ اچھائیں نہیں تواورکیاہیں؟‘‘
’’یہ توآوشیکتائیں ہیں۔‘‘
’’اوراِچھائیں کیاہوتی ہیں صاحب؟‘‘
’’اِچھائیں آوشیکتاؤں سے اوپرہوتی ہیں۔میں سمجھتاتھاتمہاری اِچھائیں بھی ہماری طرح ہوں گی۔یعنی تمہیں بھی گاڑی،بنگلہ،نوکرچاکر کرسی عیش وآرام وغیرہ کی اِچھّاہوگی۔‘‘
’’صاحب آپ ہم پرکچھ لکھنے آئے ہیں نا؟‘‘
’’ہاں،کیوں؟‘‘
’’آپ ہم پر نہیں لکھ سکتے؟‘‘
’’کیوں نہیں لکھ سکتے؟‘‘وہ چونک پڑا۔
’’اس لیے کہ ہم آپ کی سمجھ میں نہیںآسکتے۔‘‘
’’کیوں بھائی! سمجھ میں کیوں نہیںآسکتے۔‘‘
’’ہم آپ سے بالکل الگ ہیں صاحب۔بالکل الگ۔‘‘
’’توکیاہوا؟‘‘
’’ہم کو قریب سے دیکھے بناآپ ہمیں نہیں سمجھ سکتے۔‘‘
’’ہم تواسی لیے آئے ہیں کہ قریب سے دیکھیں۔‘‘
’’توہماری ایک رائے مانیے صاحب۔‘‘
’’بولو۔‘‘
’’کچھ دنوں تک آپ ہم میں رہے۔‘‘
’’ٹھیک ہے کچھ روز ہم تمہارے ساتھ رہیں گے۔‘‘
’’صرف ساتھ رہنے سے کام نہیں چلے گا۔‘‘
’’تو؟‘‘
’’آپ کو ہمارارہن سہن ا پناناہوگا۔ہماراپہناواپہنناہوگا۔‘‘
’’تمہارا پہناواپہنناہوگا؟‘‘اس کی نگاہیں چورسیاکی میلی کچیلی دھوتی پرمرکوز ہوگئیں۔ دھوتی کامیل اس کی پتلیوں میں چبھنے لگا۔
اِس رنگ کو اپنے ذہن سے جھٹک دو۔اورجی کڑاکرکے یہاں رہنے اور اُن لوگوں میں بسنے کا من بناؤ‘‘اس کے اندرکی آوازنے اسے جوش دلایا۔
’’پہن لیں گے۔‘‘اُس نے مضبوط لہجے میں اسے جواب دیا۔
’’ہماراکھاناکھانا ہوگا۔‘‘
’’تمہاراکھانابھی کھائیں گے۔‘‘
’’ہماری طرح سوناہوگا۔‘‘
’’سوئیں گے۔‘‘
’’ہم جوکام کرتے ہیں،کرناپڑے گا۔‘‘
’’کام بھی کرناپڑے گا؟‘‘
’’اورکیا،کام بھی کرناپڑے گا۔‘‘
’’ٹھیک ہے، کام بھی کریں گے۔‘‘
’’توآپ ہماری طرح بن جائیے۔‘‘
’’لو،بن جاتے ہیں۔‘‘
’’آپ اپنے یہ کپڑے اُتارئیے۔‘‘
’’اُتاردیں گے ،پہلے تم اپناکوئی کپڑاتولادو۔‘‘
’’سوکھیا!ارے اوسوکھیا!تنک گھرسے ایک دھوتی تولانا۔‘‘
’’ابھی لایاکاکا۔‘‘ایک میلی کچیلی دھوتی آگئی۔‘‘
’’لیجیے صاحب!اِسے پہن لیجیے۔‘‘
دھوتی ہاتھ میں لیتے ہی بدبوکاایک بھبکااس کے نتھنوں میں سماگیا۔اس کا چہرہ یک بارگی بگڑگیا۔
’’برج موہن!بدبوجھیلنے کی عادت ڈالو۔ٹھیک کروچہرے کو۔‘‘
اندرسے آوازاُٹھی اور اُس نے بدبو برداشت کرنے کی کوشش شروع کردی۔
’’کپڑے کہاں بدلیں؟‘‘
’’یہیں،اورکہاں۔‘‘
’’لیکن یہاں سب کے سامنے شرم نہیں آئے گی؟‘‘
’’صاحب اِسے بھی اُتارناپڑے گا۔ٹھیک ہے،فی الحال اُدھر آڑمیں جاکربدل لیجیے۔‘‘
’’وہ دھوتی لے کرآڑمیں چلاگیا۔کپڑے بدل کروہ چورسیا کے پاس آیاتواسے دیکھ کر بچّے کھِلکھِلا پڑے۔
’’میلی دھوتی اوراُجلے بنیائن میں وہ سرکس کا جوکردکھائی دے رہاتھا۔بچّوں کے ہنسنے پر اسے غصّہ تو بہت آیامگر اس نے اپنے غصے پرقابوپالیا۔‘‘
’’لو،تمہارے کپڑے توہم نے پہن لیے،بولو،اب اور کیاکرنا ہے؟‘‘
’’اب چلیے کام پرچلتے ہیں۔‘‘
’’کہاں؟‘‘
’’جنگل میں۔‘‘
’’کس لیے؟‘‘
’’لکڑیاں توڑنے۔‘‘
’’لکڑیاں توڑنے؟‘‘پہلے وہ چونکا،کچھ دیر تک خاموش رہا،پھردھیرے سے بولا۔
’’اچھّا چلو۔‘‘
بے راستے کے راستے پرچلتا ہواتقریباً تیس چالیس منٹ بعد وہ چورسیا کے ساتھ جنگل پہنچا۔جنگل پہنچتے پہنچتے وہ پسینے میں شرابور ہوگیا۔دھوتی سے اس نے اپنے منھ کاپسینہ پونچھااور ایک جگہ بیٹھ کرجنگل میں اِدھر اُدھر نگاہ دوڑانے لگا۔
’’صاحب! میں تواس پیڑ پرچڑھ رہاہوں۔آپ بھی کسی پیڑپرچڑھ جائیے۔‘‘
’’اچھّا۔‘‘اس نے اچھّاتوکہہ دیامگر پیڑپرچڑھنااس کے لیے آسان نہیں تھا۔
پوری ہمّت جُٹاکروہ آگے بڑھا۔ایک پیڑپرچڑھنے کی کوشش کی مگر کامیاب نہ ہوسکا۔ ایک اورپیڑ پرہمّت آزمائی مگر جلدہی پھسل کرنیچے آگرا۔
لگاتاروہ کئی پیڑوں کے پاس گیا،چڑھا،پھسلا،گرا۔آخرکارتیمورلنگ کی چیونٹی کی طرح ایک پیڑ پرچڑھنے میں کامیاب ہوہی گیا۔
کافی احتیاط سے اس نے کچھ سوکھی لکڑیاں توڑیں اوراپنے کوگرنے سے بچاتا ہوانیچے اُتارلیا۔
احتیاط کے باوجود اس کے ہاتھ پاؤں میں خراشیں آگئی تھیں۔ایک ہاتھ لہولہان ہوگیا تھا۔
’’صاحب!آپ توگھائل ہوگئے ہیں۔لائیے آپ کے گھاؤپرمٹّی لگادوں۔‘‘اپنا گٹھّر زمین پر رکھتے ہوئے چورسیا بولا۔
’’مٹّی!۔کیاکوئی دوانہیں مل سکتی؟‘‘خوف آنکھوں کے سامنے لہرانے لگا۔
’’صاحب!دواآس پاس میں کہاں ملے گی۔اس کے لیے بہت دورجاناپڑے گا۔تب تک آپ کے شریر کاآدھا خون بہہ جائے گا۔ڈرئیے نہیں ،میں مٹّی کا لیپ لگادیتاہوں۔اِسی سے ٹھیک ہوجائے گا۔ ہم تو یہی لگاتے ہیں۔‘‘
’’اچھّا۔‘‘مجبوراً اس نے حامی بھری۔
اس کے زخم پر مٹّی لگ گئی مگر وہ اندرہی اندرڈرتا رہاکہ کہیں ٹٹنس نہ ہوجائے۔اِس موقعے کے اُسے جتنے منتریادتھے،سب پڑھ ڈالے اور دل ہی دل میں بھگوان سے پرارتھنا کرتارہاکہ وہ اُسے ٹٹنس سے بچالے۔
’’صاحب!آج بس اِتنا ہی۔باقی کل۔اب گھرچلتے ہیں۔:‘‘
گھرکانام سنتے ہی ایک کوٹھی اُس کی نگاہوں میں کھڑی ہوگئی،لان کے پھول اور دیواروں کے رنگ وروغن لہرانے لگے۔
چورسیا کے منع کرنے کے باوجود اپنی لکڑیوں کا گٹھر اس نے خوداُٹھایا اورراستے میں گرتاپڑتاجنگل سے بستی میں آگیا۔
دونوں کے آگے دوپہرکاکھانارکھ دیاگیا۔
دھبے داراورجگہ جگہ سے بچکی ہوئی المونیم کی تھالی میں ایک عجیب طرح کا بھرتا اور موٹی،مٹ میلی ٹھیکرے جیسی سخت روٹی کو دیکھتے ہی اُس کی ناک بھؤں سکڑ گئی۔مگرپیٹ کی آگ اس کے ہاتھ کوروک نہ سکی۔
پہلے ہی لقمے میں اُس کا منھ بگڑگیا۔حلق تک پہنچتے ہی اول نے گلاپکڑلیا۔پانی کی طلب محسوس ہوئی لیکن پانی نے گلااوردبادیا۔اس نے صرف سوکھی روٹی سے پیٹ بھرا۔روٹی سے اس کا تالوبھی چھل گیا۔
’’کیاروزیہی بھوجن ملے گا؟‘‘سختی سے روکنے کے باوجود یہ سوال اس کے لبوں سے باہرآگیا۔
’’نہیں،دوسرے پرکارکاکھانا بھی ملے گا‘‘چورسیانے ہمدردانہ لہجے میں جواب دیا۔
کھاناکھاکروہ ایک ڈھیلی ڈھالی چارپائی پرلیٹ گیا۔اول کی جلن توکچھ کم ہوگئی تھی مگر تالوکی تکلیف اب بھی برقرارتھی۔
باجرے کی روٹی کسی دھاردارناخن اورنکیلے دانتوں والے راکشش کی طرح اس کے سامنے منڈلانے لگی۔
روٹی میں چھپے نیش ونشترسے تنگ آکراس کی نگاہیں اپنے گھرکی ڈائننگ ٹیبل پرپہنچ گئیں۔
پراٹھے،ٹوسٹ مکھن، میٹ مچھلی،دودھ دہی ،پھل سبزی،جام جیلی اس کا استقبال کرنے لگے۔
ایک وقت کے کھانے میں گھریادآگیا۔اُنھیں دیکھو!یہ کھانانہ جانے کب سے یہ چپ چاپ کھاتے چلے آرہے ہیں۔ان کے حلق اورتالوؤں کی تکلیف کا اندازہ لگاؤ!کب سے وہ جل رہے ہیں؟کب سے وہ چھل رہے ہیں؟
اُس کے اندرون کی آوازنے اسے اپنے گھرکی ڈائننگ ٹیبل سے واپس کھینچ لیا۔اور اس کا ذہن اپنے جسم سے نکل کربستی والوں کے حلق میں پہنچ گیا۔
رات کاکھانا آیاتوچورسیا بولا۔
’’صاحب!اس وقت اچھّا سالن پکاہے۔‘‘
’’کیاپکاہے؟‘‘
’’مانس پکاہے۔‘‘
’’مانس کہاں سے لائے ہو؟‘‘
’’ایک ڈانگر مراتھا۔اس کامانس لائے ہیں۔‘‘
’’مرے ہوئے ڈانگر کامانس؟‘‘
’’جی صاحب۔‘‘
’’کیاتم لوگ مردار بھی کھاتے ہو؟‘‘
’’ہاں صاحب!۔اورآپ لوگ؟‘‘
’’نہیں ،ہم نہیں کھاتے۔‘‘
’’کیوں صاحب؟‘‘
’’مردار کھانامنع ہے۔‘‘
’’ہمیں توکسی نے بتایاہی نہیں صاحب۔ٹھیک ہے،ہم آپ کے لیے رگڑا پسوا دیتے ہیں۔‘‘
’’رگڑا کیا؟‘‘
’’مرچ اور لہسن کی چٹنی۔‘‘
’’او۔ٹھیک ہے چلے گا۔‘‘
اس کے لیے مانس کی جگہ رگڑا آگیا۔رگڑے کے ساتھ اس نے بڑی مشکل سے ایک روٹی کھائی اورڈھیرساراپانی پی کراس کوٹھری میں چلاگیا،جہاں اس کے سونے کا بندوبست کیاگیا تھا۔
کوٹھری میں گھستے ہی سیلن اور مٹّی کے تیل کی بدبونے اسے بے چین کردیا۔بسترکے نام پروہاں مونج کے بانوں والی ایک چارپائی پڑی تھی،وہ اسی ننگی چارپائی پرلیٹ گیا۔
کچھ دیربعدمچھروں کی فوج نے اُس پریلغار کردیا۔ایسالگتاتھاجیسے فوج برسوں کی بھوکی پیاسی ہو۔زہرمیں بجھے تیروتبراس کے جسم میں چبھ چبھ کرٹوٹنے لگے۔ایک طرف سے جنگ کی وہ ہولناکیاں جھیل ہی رہاتھاکہ دوسری طرف سے بھی حملہ شروع ہوگیا۔اُس کی پیٹھ جلنے لگی۔جیسے کسی نے اُس میں آگ کے گولے داغ دیے ہوں۔
ٹارچ جلاکردیکھاتوبے شمار موٹے موٹے کھٹمل اس کے خون کے پیاسے ہورہے تھے۔ اُس نے بھی جوابی کارروائی شروع کردی۔ اُس کے دونوں ہاتھ خون کے دھبّوں سے بھر گئے۔
کھٹمل کومسل کروہ پھرسے لیٹ گیا۔مگر جلدہی چارپائی کی خفیہ چھاونیوں سے فوج کی ٹکڑیاں نکل کرپھر سے میدان میںآگئیں۔
مچھروں اورکھٹملوں کے ڈنک نے اُسے چارپائی سے زمین پراُتاردیا۔اُس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیاکرے؟کہاں جائے؟کس طرح رات بتائے۔وہ کوٹھری سے باہر آکرٹہلنے لگا۔
اچانک اُس کی آنکھوں میں اُس کا بیڈروم کھل گیا۔ڈنلپ کے گدّے،پھو ل دار ریشمی چادر،نرم ملائم تکیے،پرفیوم کی خوشبو،اور خوبصورت شریک سفر کا لمس اس کی تکلیف میں اور اضافہ کرنے لگے۔
دفعتاً ایک گاؤن اُس کی آنکھوں میں لہراگیا۔
کم سے کم گاؤن ہی پہن لیاجائے کچھ توبچاؤ ہوسکے گا۔یہ سوچ کروہ کوٹھری کی طرف لوٹنے لگا۔
کسی نے دیکھ لیاتو؟
اِس وقت کون دیکھے گا؟صبح لوگوں کے اُٹھنے سے پہلے ہی وہ اِسے سوٹ کیس میں رکھ دے گا۔
وہ سوٹ کیس کے پاس پہنچ کر اُسے کھولنے لگا کہ اُس کے اندرکی آوازپھر گونج پڑی۔
’’یہ کیا کررہے ہو؟ماناکہ دوسرے نہیں دیکھ رہے ہیں مگر تم تودیکھ رہے ہو؟کیااِتنی جلد ہار گئے؟تم تویہاں کی زندگی جاننے چلے تھے۔ اُن کے دکھ دردکوقریب سے دیکھنے اور اُنہیں محسوس کرنے کے لیے رُکے تھے ؟چورسیا صحیح کہہ رہا تھا کہ تم اس کے جیون پرنہیں لکھ سکتے۔تم کشٹ نہیں جھیل سکتے۔جاؤ!چلے جاؤ!بھاگ جاؤ!‘‘
’’نہیں۔‘‘سنّاٹے میں نہیں کی آواز دورتک گونج پڑی۔ اس کا ہاتھ ٹھٹھک گیا۔چابی تالے میں گھومنے کے بجائے باہرنکل آئی۔
وہ سیلن اورتیل کی بدبوسے بھری کوٹھری میں ننگی چارپائی پرپھرسے لیٹ گیا۔رات بھر مچھراور کھٹمل اس پر جارحانہ وارکرتے رہے اوروہ اپنے تخلیقی جوش وخروش کے بل بوتے پر ان کے ڈنک اورٹیس کو سہتارہا۔
صبح جب چورسیا اس سے ملنے آیاتووہ اسے حیرت سے دیکھتے ہوئے بولا۔
’’صاحب،آپ کے شریر پرتومچھروں نے برُی طرح گودنا گوددیاہے۔‘‘
چورسیا کے بتانے پرجب اس نے اپنے آپ کودیکھاتواُسے محسوس ہوا جیسے راتوں رات اس کے جسم پر چیچک نکل آئی ہو۔
’’صاحب آپ بے کارمیں اپنا جیون خراب کررہے ہیں۔آپ واپس چلے جائیے ورنہ ہمارے ساتھ رہ کر آپ کا بھی ———‘‘
’’نہیں نہیں،میں واپس نہیں جاؤں گا۔میں یہاں رُکوں گا۔حالات کا مقابلہ کروں گا۔ اورجس مقصدکے لیے آیاہوں،اُسے ضرورپورا کروں گا۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔آپ کی مرضی،نہاناچاہیں تووہاں جاکرنہالیجیے۔‘‘چورسیانے ایک چھوٹے سے پوکھرکی طرف اشارہ کیا۔
اُس نے اُدھر دیکھاتواُس کی نظریں شرم سے جھُک گئیں۔وہاں بہت سی عورتیں بھی ننگی نہارہی تھیں۔
’’صاحب! آنکھ جھُکانے سے کام نہیں چلے گا۔یہاں رہنا ہے تووہیں نہاناپڑے گا۔ اُنھیں کے ساتھ جس طرح ودوسرے مردنہارہے ہیں۔اورہاں،اوربھی بہت کچھ دیکھنا پڑے گا۔‘‘
اُس نے آہستہ آہستہ نظریں اوپر اُٹھاکرپھرسے تالاب کی جانب مبذول کردیں۔
اُس کے بدن میں جھرجھری سی دوڑگئی۔
اُس کی طرف کچھ عورتوں نے بھی دیکھا مگر ان کے چہروں پراس قسم کا کوئی تاثر نہیں تھا۔
اُس کے پاؤں دھیرے دھیرے تالاب کی طرف بڑھنے لگے۔قریب پہنچ کردیکھا تو اس چھچھلے تالاب میں بہت سارے جانوربھی لوٹ لگارہے تھے۔
پانی کے رنگ اور بدبو کے بھپکے نے اسے پیچھے ڈھکیل دیامگر کچھ دیربعد اس کے پاؤں پھرآگے بڑھ گئے اور بڑھتے چلے گئے۔
رفتہ رفتہ اس نے خودکواس ماحول میں ڈھال لیا۔صرف گندے پانی ہی میں نہیں بلکہ اس نے اپنے آپ کووہاں کی گھناؤنی زندگی کی گہرائی میں بھی اُتارلیا۔
کچھ ہی دنوں میں اس کے گورے رنگ پرسیاہی کی پرت چڑھ گئی۔اس کے گال پچک گئے ۔آنکھیں اندرکودھنس گئیں۔چہرہ دھوپ میں جل کرکالاپڑگیا۔ہاتھ پاؤں میں جگہ جگہ زخم کے نشان بن گئے۔
اس کاحلیہ اس حد تک بدل گیا کہ اسے خودکوپہچاننا مشکل ہوگیامگراسے خوشی تھی کہ وہ اپنے مشن میں کامیاب رہا۔اس نے وہاں وہ سب کچھ دیکھ لیاجودیکھنا چاہتاتھا۔
وہاں سے لوٹ کر وہ تخلیقی عمل میں مصروف ہوگیااورایک دن اس نے اپنے مشاہدات، تجربات اور محسوسات کوتخلیق کے قالب میں ڈھال کر اسے چھپنے کے لیے سب سے اہم رسالے کو بھیج دیا۔اسے یقین تھا کہ اس کی یہ تخلیق شاہ کارثابت ہوگی اور چاروں طرف دھوم مچادے گی مگر اس کی وہ تخلیق شائع نہ ہوسکی۔ رسالے کے مدیرنے یہ لکھ کر لوٹادی کہ:
’’اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ رچنا کافی محنت سے رچی گئی ہے۔ رچنا کارنے فنکاری بھی خوب دکھائی ہے مگر افسوس کے ساتھ کہناپڑتا ہے کہ یہ رچنا ہماری میگزین کے معیار پرپوری نہیں اُتری۔اس لیے کہ یہ آج کے زمانے کا ساتھ نہیں دیتی۔یہ سائبراسپیس میں فٹ نہیں ہوتی۔‘‘
مدیرکاخط پڑھ کر اس کی آنکھیں پھیل گئیں۔اور اس کے ذہن میں چورسیا کاایک جملہ گونجنے لگا۔’’یہاں کی آتما آپ کو دکھائی دے گی صاحب؟‘‘
(مجموعہ پارکنگ ایریا ازغضنفر، ص 193)