چوری
ارے ارے۔ ۔ ۔ ارے رکو۔ ۔ ۔ ارے۔ ۔ ۔ او بھائی۔ ۔ ۔ ارے کوئی پکڑو۔ ۔ ۔ وہ۔ ۔ ۔ چور چور۔ ۔ ۔ میں بھوکا مر جاؤں گا۔ ۔ ۔ ارے کوئی دوڑو۔ ۔ ۔ ارے۔ ۔ ۔
دُبلا پتلا نو عمر حسن چلتے چلتے پلٹا اور مخالف سمت کی طرف دوڑنے لگا۔ بازار شروع ہونے سے پہلے آنے والے اس موڑ پر جہاں چوراہا تھا، کئی دن سے چور سرگرم تھے۔ موڑ سے کوئی سو قدم پیچھے بینک تھا۔بینک والی سڑک چوڑی تھی اور ہر وقت مصروف بھی۔ کچھ آگے چل کر چوراہے کی بائیں جانب بازار شروع ہو جاتا۔ بازار کے اطراف چونکہ بستی تھی، اس لیے ہر وقت بھیڑ رہتی۔ کئی کشادہ گلیوں پر مشتمل اس بازار میں انڈے سے لے کر گاڑیوں کے پرزوں تک ہر شئے دستیاب تھی۔ ان کشادہ گلیوں کو بہت سی چھوٹی چھوٹی گلیاں ، آپس میں ملاتی تھیں ۔
دو دن پہلے بھی کچھ ایسا ہی واقعہ ہوا تھا۔ ایک آدمی بینک سے کچھ روپے لے کر نکلا تھا۔ رومال میں لپیٹ کر روپے اُس نے تھیلی میں رکھے تھے اور تھیلی کو لپیٹ کر مستطیل بنڈل بنا کر ہاتھ میں پکڑے چل رہا تھا۔ لگتا تھا جیسے صابن کی دو بڑی بڑی ٹکیاں ہوں ۔ مگر کوئی شخص شاید اُس کا پیچھا کر رہا تھا کہ موڑ پر مڑتے ہی اُس نے لفافہ جھپٹا اور جانے کس گلی میں غائب ہو گیا۔ وہ چیختا رہا، لوگ اِدھر اُدھر دوڑے بھی مگر کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوا۔
اُس کے دوسرے دن بھی بینک والے موڑ پر ہی ایک آدمی کا بیگ چھینا گیا۔اور کوئی پکڑا نہ گیا۔
آج جب حسن اُسی موڑ سے اندر بازار کی طرف مڑا تو کچھ قدم چلنے کے بعد ہی کوئی بھاگتا ہوا آیا اور اُس کے ہاتھ میں بڑی نفاست سے تھمی چوکور شکل میں لپٹی ہوئی چیز کو چھین کر بھاگا۔
مگر پیچھے سے سکوٹر پر ایک سردار جی آ رہے تھے،حسن کو یوں بھوکا مر جانے کی دہائی دیتے سُن کر بجلی کی پھرتی سے پلٹے اور چور کو گردن سے پکڑ لیا۔ حسن نے دوڑ کر اُس کے ہاتھ سے تھیلی چھین لی تو پاس کے بزرگ دکان دار نے پکار کر شاباشی دی۔
یہ ہوئی نا بات۔ایسے بہادر ہوں تو یہ اُچکّے کسی کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے۔ ۔ ۔ ذرا گن تو لو اپنی رقم۔ ۔ ۔ پھر اس کو پولیس کے حوالے کریں گے۔
حسن حیرت سے اُن کا منھ دیکھتا رہ گیا۔
کون سی رقم لالہ جی۔ ۔ ۔
ارے یہی یار۔ ۔ ۔ کیا معلوم اب تک ہی اس نے اُڑا لی ہو۔ ۔ ۔ اور خالی تھیلی تمہارے حصے آئی ہو۔ ۔ ۔ سردار جی نے حسن کے ہاتھ کی طرف اشارہ کیا۔
یہ۔ ۔ ۔ یہ تو۔ ۔ ۔ یہ تو روٹی ہے میری۔میری بیوی بڑے پیار سے پیک کرتی ہے اسے۔ وہ سُرمہ لگی آنکھیں جھپکا کر مسکرایا اور شرما کر آگے بڑھ گیا۔