چین ، امریکہ اور تائیوان کا قضیہ

    تائیوان بحر الکاہل کی آبنائے تائیوان کے ساتھ جزیرہ ہے جو اس وقت دو عالمی طاقتوں ، چین اور امریکہ کے درمیان تنازع بنا ہوا ہے۔  آج سے تقریباً ایک ماہ پہلے، جب صدر شی جی پنگ اور جو بائیڈن کے درمیان ورچول ملاقات  ہوئی تھی تو یہ وہ مسئلہ تھا جس پر دونوں سربراہان ایک دوسرے کو دھمکیاں دیتے نظر آئےتھے۔  چین  اس جزیرے کو اپنا باغی صوبہ قرار دیتا ہے، جب کہ تائیوان کی حکومت نہ صرف اسے خود  مختار ریاست بنانا چاہتی ہے، بلکہ  اصل چینی حکومت ہونے کی دعوے دار بھی ہے۔ اس کی ایک پوری تاریخ ہے ۔  چین اور تائیوان کے تنازعے میں ایک تیسرا ملک  بھی فریق بنا ہوا ہے، جو امریکہ ہے۔ امریکہ تائیوان کو کسی بھی صورت چین   کی گود میں جاتا نہیں دیکھنا چاہتا۔  کیوں کہ  تائیوان کا جزیرہ معاشی و سٹریٹجک حوالے سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔

آپ تائیوان کی اہمیت کو اس سے جان سکتے ہیں کہ وہ اس وقت دنیا کے  ٹیکنالوجیکل نظام میں دماغ کا کام دینے والے سیمی کنڈکٹرز اور  مائیکرو چپس کا سب سے بڑا مینوفیکچرر ہے۔ دنیا کے موبائل  فونز سے لے کر  سوپر کمپیوٹرز، سرویلنس ڈیوائیسز سے لے کر میزائلز، ٹریکنک ڈیوائسز  حتیٰ کے امریکہ کے فائیٹر  جٹس میں استعمال ہونے والی چپس   اور دیگر سیمی کنڈکٹر آلات کی  ساٹھ فیصد سے زیادہ مینوفیکچرنگ اسی تائیوان کے جزیرے مین ہوتی  ہے۔ 

سیمی کنڈکٹرز اور چپس کی جیو پولیٹیکل اہمیت کو سینٹر فار اے نیو امریکن سیکیورٹی کے ایک سینئر رکن  ،  مارٹیجن راسر کے ایک   بیان سے  سمجھا جا سکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں: "اکیسویں صدی میں جو کوئی بھی  ان مائیکرو چپس کی پیداوار اور ڈیزائین  کو  کنٹرول کرے گا، وہ اکیسویں صدی کے دھارے کو کنٹرول کرے گا"۔ امریکہ اور چین کے  بنیادی سیمی کنڈکٹر فراہم کنندہ  کی حیثیت، تائیوان  کو دو سپر پاورز کے درمیان  مفادات کا گڑھ بنا دیتی ہے۔ – امریکہ کی بڑی بڑی عالم گیر کمپنیاں بشمول Apple، Nvidia، اور Qualcomm  سب اپنے سیمی کنڈکٹرز اور چپس کے لیے تائیوان پر انحصار کرتے ہیں۔- اسی طرح چین بھی ابھی تک تائیوانی کمپنیوں جیسی جدید   مائیکرو چپس بنانے میں ناکام رہا ہے۔ تائیوان کی یہ صلاحیت، جہاں اس کے لیے  خطرات کا باعث ہے، وہیں اس کو اپنی آزاد حیثیت برقرار رکھنے میں خاصی مددگار ثابت  بھی ہوتی ہے۔ چین، بنا سوچے سمجھے، اسے مین لینڈ میں ضم نہیں کر  پاتا۔ کیوں کہ اس سے اس کی اپنی مکمل سپلائی چین متاثر ہوتی ہے۔

            دونوں  سپر پاورز، یعنی چین اور  امریکہ یہ نہیں چاہتے کہ  تائیوان پر دونوں طاقتوں میں سے کوئی بھی مکمل کنٹرول حاصل کر لے۔ کیوں کہ، اس کنٹرول کا مطلب ہوگا کہ وہ اب ہر قسم کی الیکٹرونک ٹیکنالوجی کو کنٹرول کرے گا۔

             تائیوان کی ایک اور اہمیت اس کی جغرافیائی پوزیشن بھی ہے۔  تائیوان ساؤتھ چائینہ سی کی شپنگ لین کے کنارے پر واقع ہے۔ یہ مین لینڈ چین کے ساحل سے 100 میل دور،    فلپائن سے جنوب میں 200 میل، ویتنام سے 900، سپراٹلی جزائر سے 1000 سے کم، اور جاپان کے جزائر 700 میل دور واقعہ جزیرہ ہے۔ علاقائی طاقتوں کے لیے یہ جارحانہ اور دفاعی دونوں طرح کے  سٹریٹجک مقاصد کی تکمیل  کا اہم مرکز ہے۔ تائیوان جغرافیائی طور پر مشرقی ایشیا کے زیادہ تر خطرے کے مقامات کے  درمیان میں موجود ہے۔ یہاں تک کہ شمالی و جنوبی  کوریا  میں اگر جنگ چھڑ جائے تو تائیوان سے   حملے کیے جا  سکتے ہیں۔

ماضی  قریب میں دیکھیں تو جب جاپان نے 7 دسمبر 1941 کو پرل ہاربر پر بمباری کی تھی تو اس نے بیک وقت فلپائن پر بھی حملہ کر دیاتھا۔ اس سے بحرالکاہل میں دوسری جنگ عظیم شروع ہو گئی تھی۔ یہ دوسری جنگ عظیم کا وہ موقع تھا جب جاپان نے مشرقی ایشیا اور جنوب مشرقی ممالک پر اپنا تسلط قائم کرنے کے لیے یہ اقدام کیا تھا۔ اپنی اس اہم  کاروائی کے لیے فضائی حملہ جاپان نے تائیوان کے جزیرے سے کیا تھا جو اس وقت  جاپانیوں کے زیرنگیں تھا۔ تائیوان، فلپائن اور انڈونیشیا ،  دونوں پر حملوں کے لیے  مرکز کی اہمیت رکھتا تھا۔ جنگ کے دوران،  تائیوان نے حملہ کرنے کے مرکز اور بڑے سپلائی بیس کے طور پر کام کیا جس نے جنوب مشرقی ایشیا میں جاپان کی فوجوں کو برقرار رکھا اور آبنائے تائیوان یا تائیوان سٹریٹس کے ذریعے تمام جہاز رانی  کو کنٹرول کیا۔ امریکی محکمہ خارجہ نے اس وقت کہا تھا کہ تزویراتی یا سٹریٹجک عوامل کی بنیاد پر، سنگاپور کے علاوہ، مشرق بعید میں کسی دوسرے مقام پر ایسی کنٹرولنگ پوزیشن نہیں ہے، جیسی  تائیوان میں ہے۔

 یہ تھی تائیوان کی اس وقت کی جغرافیائی سٹریٹجک اہمیت  جب آج سے سات آٹھ دیہائیاں قبل عالمی طاقتیں  اپنی بالادستی قائم کرنے کے لیے  لڑ رہی تھیں اور  تائیوان کو اپنے بیس کے طور پر استعمال کر رہی تھیں۔ اس کی یہی اہمیت آج بھی برقرار ہے۔  تائیوان کو کنٹرول کرنے سے بحیرہ جنوبی چین میں چین کی کارروائیوں میں مدد ملے گی اور وہ فلپائن، ویت نام، ملائیشیا اور برونائی کے خلاف اپنے علاقائی اور سمندری دعووں کو مزید جارحانہ انداز میں قائم کرنے کے قابل ہوگا۔ چین   اپنے دعوے کے مطابق "نائن ڈیش لائن" کو اور  زیادہ آسانی  سے نافذ کر پائے گا۔  چین ابھی 1600 بیلسٹک میزائل  فٹ کر کے تائیوان اور امریکی بحریہ کو  نشانے پر رکھ کے کسی بھی جارہانہ اقدام سے باز  رکھتا ہے،  اگر وہ تائیوان کی مکمل رسائی حاصل  کر لے تو انہیں تائیوان پر منتقل کر کے، وہ لوگ جنہیں وہ اپنا سمجھتا ہے، کو ان بلسٹک مزائل  کے نشانے سے ہٹانے کے قابل ہو جائے گا۔  پھر وہ امریکی بحریہ کو برائے راست نشانے پر لے سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ جنوب مشرقی ایشیا کی دیگر ریاستوں کے بحری  جہازوں اور جہاز رانی کے راستوں  کو کنٹرول کر پائے گا۔

چین تائیوان کو  ایک اہم لنک کے طور پر بھی دیکھتا ہے ، ان تمام جزائر کے لیے جسے وہ "پہلی جزائر کی مالا" قرار دیتا ہے۔  جزائر کی اس مالا میں جاپان، ریوکیو جزائر، فلپائن، ملائیشیا، انڈونیشیا اور آسٹریلیا شامل ہیں۔ بیجنگ ان جزائر کے درمیان نیوی گیشن  پوائنٹس تک پہنچنا چاہتا ہے۔ اس سے وہ اپنی پیپلز لبریشن آرمی کی بحریہ  کو ان جزائر تک پہنچا پائے گا، جنہیں وہ دوسری جزائر کی مالا قرار دیتا ہے۔  ان جزائر میں  گوام، میریانا اور وسطی بحرالکاہل میں کچھ دوسرے چھوٹے  چھوٹے جزائر شامل ہیں۔ ان جزائر کو عبور کر کے چین آسانی سے سے کھلے سمندر میں اتر پائے گا اور وہاں کہیں ڈیپ سی پورٹ بنا کر اپنی تجارت بڑھا پائے گا۔

اگر چین تائیوان کو کنٹرول کرتا ہے، تو ان کے پاس تائیوان کی گہرے پانی کی بندرگاہوں سے بحر الکاہل میں نکلنا بہت آسان ہوگا۔ وہ جاپان کے لیے ایک نیا خطرہ  بن سکتے ہیں – جو اپنی توانائی اور دیگر خام مال کے لیے مکمل طور پر مشرقی ایشیا کے سمندری راستوں پر  انحصار کرتا ہے۔ چینی  فورسز امریکی ساتویں بحری بیڑے، ہوائی اور یہاں تک کہ ریاستہائے متحدہ کے  لیے بھی خطرہ بن سکتیں ہیں۔ کیوں کہ جزیرہ تائیوان سے چین امریکی ریاستوں اور اس کے دیگر سٹریٹجک پوائینٹس کو بڑی آسانی  سے نشانے پر لے پائے گا۔ عالمی ماہرین متفق ہیں کہ  چین کے تائیوان پر قبضے کا مطلب بحرالکاہل اور مشرق بعید میں طاقت کے توازن کا پوری طرح  بدل جانا ہے۔  یہ قبضہ چین کو امریکہ پر بحرالکاہل کے پانیوں پر بالادست کرنے کے لیے کافی ہوگا۔

متعلقہ عنوانات