چین اور تائیوان کا مسئلہ

تائیوان، جیسا کہ ہم جانتے ہیں، مغربی بحر  الکاہل میں انتہائی اسٹریٹجک اہمیت کا حامل جزیرہ ہے جو  اپنے آپ کو خود مختار ریاست سمجھتا ہے لیکن چین اسے اپنا باغی صوبہ سمجھتے ہوئے اسے مین لینڈ چینی حکومت کے تابع لانا چاہتا ہے۔

 اس کی ایک تاریخی وجہ ہے۔  1949 میں جب  جدید کیمونسٹ چین کے بانی ماؤزے تنگ  نے اس کی بنیاد رکھی    تو ان  کے نیشنلسٹ مخالف چیان کائی شیک  جزیرہ تائیوان   چلے   گئے اور وہاں مغربی طاقتوں کی حمایت سے اپنی چینی نیشنلسٹ حکومت کا اعلان کر دیا۔  دونوں حکمرانوں یعنی ماؤزے تنگ اور چیان کائی شیک نے اپنے اپنے زیر انتظام حکومتوں کو اصل چینی حکومت قرار دیا اور دنیا کو اس سے تعلقات قائم کرنے کو کہا۔ اب  دنیا کے  نقشے پر دو چین ابھر کر آئے ۔ ایک  پیپلز ریپبلک آف چائینہ جس کا دار الحکومت بیجنگ میں تھا ۔ ماؤذےتنگ کا یہ چین سوویت حمایت یافتہ تھا اور اس میں  اشتراکی نظام قائم تھا۔ دوسرا ریپبلک آف چائینہ تھا۔ اس کا دار الحکومت تائیپے تھا۔  یہ امریکہ کی چھتر چھایہ تلے تھا ۔ تب سے لے کر آج تک  تائیوان اپنے آپ کو خود مختار ریاست سمجھتا ہے لیکن چین اسے صرف اپنا باغی صوبہ سمجھتا ہے اور اسے مین  لینڈ کے  تابع کرنا چاہتا ہے۔  چونکہ ماؤزے تنگ کا چین ایک کیمونسٹ چین  تھا، لہٰذا امریکہ نے چیان والی حکومت کو اصل چینی حکومت قرار دیا۔ اسی وجہ سے امریکہ نے  اپنے سفارتی تعلقات بھی  ریپبلک آف چائینہ سے بنائے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل  کی مستقل سیٹ بھی اس وقت امریکہ نے چیان کائی شیک کے حوالے کی،  ماؤ کے نہیں۔  یہ معاملات 1971 تک یوں ہی چلتے رہے  لیکن پھر امریکہ کے تعلقات ماؤ والے چین سے بہتر ہونا شروع ہوئے۔ 1971 میں  اقوام متحدہ میں قرارداد نمبر 2758 منظور ہوئی۔ اس قرارداد کے ذریعے  سلامتی کونسل کی سیٹ بھی  چیان والے چین سے لے کر ماؤ  والے چین کو دے دی گئی۔ 1979 کے آتے آتے امریکہ نے اپنے سفارتی تعلقات بھی  ریپبلک آف چائینہ سے توڑ کر پیپلز ریپبلک آف چائینہ سے قائم کر لیے۔

چین اور تائیوان کے درمیان تعلقات 1980 کی دہائی میں بہتر ہونا شروع ہوئے۔ چین نے ایک فارمولہ پیش کیا، جسے "ایک ملک، دو نظام" کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس کے تحت تائیوان کو  خاص خود مختاری دی جانے کی پیشکش کی اگر وہ مین لینڈ چین یا پیپلز ریپبلک آف چین میں  شامل ہونے کا اعلان کر دے۔

یہ نظام ہانگ کانگ میں قائم کیا گیا تھا۔ لیکن تائیوان نے اس پیشکش کو مسترد کر دیا۔   پر  اپنے شہریوں کو چین کے دوروں  کی اجازت دے دی اور سرمایہ کاری کے قوانین میں نرمی کی۔ 1991 میں،  تائیوان نے عوامی جمہوریہ چین کے ساتھ جنگ ختم ہونے کا اعلان بھی  کر دیا۔

دونوں فریقوں کے غیر سرکاری نمائندوں کے درمیان محدود بات چیت بھی ہوئی مگر حکومت سے حکومت کے مذاکرات نہ ہو پائے۔ کیونکہ، بیجنگ  کا موقف تھا کہ تائیوان کی جمہوریہ چین (ROC) حکومت غیر قانونی ہے،  اس لیے حکومت سے حکومت کی ملاقاتیں نہیں ہو سکتیں۔

            2016 تک چین اور تائیوان کے مابین سرد گرم حالات چلتے رہے۔ کبھی تائیوان میں ایسے حالات پیدا ہوتے کہ وہ چین کی پیش کش ، یعنی  ایک ملک دو نظام کو  قبول کر  لے اور چین کا حصہ بن جائے۔ کبھی ایسے حالات پیدا ہونے لگتے کہ تائیوان چین سے بالکل الگ ہو جائے۔ 

ڈونلڈ ٹرمپ کے 2016 کے امریکی انتخابات جیتنے کے بعد، امریکی پالیسی میں شفٹ آیا۔  انہوں نے تائیوان کی سربراہ محترمہ تسائی سے فون پر بات کی۔ یہ  1979 میں سفارتی تعلقات ٹوٹنے کے بعد   پہلی بار امریکہ  کے سربراہ کی طرف سے تائیوان سے  باقاعدہ رسمی رابطہ کیا گیا تھا۔

باضابطہ تعلقات کی کمی کے باوجود، امریکہ نے تائیوان کو دفاعی ہتھیار فراہم کرنے کا وعدہ کیا اور اس بات پر زور دیا کہ چین کی طرف سے کوئی بھی حملہ   شدید تصادم  کا باعث بنے گا۔ اس پر چین میں شدید تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ یہ وہ مقام تھا کہ تائیوان کو لے کر امریکہ اور چین باقاعدہ الجھنے لگے تھے۔ کیونکہ اب سے امریکہ نے تیزی سے ترقی کرتے چین کی طاقت کو کنٹرول کرنے کے لیے نئی علاقائی پالیسیاں وضع کرنا شروع کی تھیں۔ جس میں تائیوان کو لازمی طور پر پوری طرح چین کے قبضے میں جانے   سے بچانا شامل تھا۔  اس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ تائیوان اپنی مضبوط معاشی حالت، ٹیکنالوجیکل ترقی، سیمی کنڈکٹرز کی تیاری اور اسٹریٹجک پوزیشن کی وجہ سے ایک پکے ہوئے پھل کی طرح تھا، جو اگر بیجنگ کی گود میں گر جاتا تو چین نہ صرف امریکہ کی ٹیکنالوجیکل نبض پر ہاتھ رکھ لیتا، بلکہ بحر الکاہل میں موجود کئی ایسے جزائر پر اپنا تسلط قائم کرنے میں کامیاب رہتا جو  امریکہ کے لیے اسٹریٹجک اہمیت کے حامل تھے۔   امریکہ ان چھوٹے چھوٹے  جزائر کے ذریعے بحر الکاہل پر  اپنے حلیفوں کی مدد سے تسلط جمائے ہوئے  ہے۔  ان وجوہات کی بنا پر تائیوان دونوں سوپر پاورز کے لیے بہت اہمیت حاصل کر جاتا ہے۔

            رفتہ رفتہ  تائیوان کے سلسلے میں دونوں عالمی  طاقتوں کے درمیان حالات کشیدہ ہوتے جا رہے ہیں۔ عالمی منظر نامے پر نظر رکھنے والے بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ امریکی و چین تنازع اگر شکل جنگ کی شکل اختیار کر گیا تو اس کا مرکز یہی تائیوان کا  مسئلہ ہوگا۔ چین رفتہ رفتہ اپنی عسکری قوت بڑھاتا، تائیوان  کو مین لینڈ کے اندر شامل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ وہ وقتاًفوقتاً تائیوانی حکومت پر مختلف طریقوں سے دباؤ بھی بڑھاتا جا رہا ہے۔  کبھی اس کے مسلح جہاز تائیوانی جزیرے کے اوپر سے گزرتے ہیں، تو کبھی تائیوان کو سفارتی دباؤ کا شکار ہونا پڑتا ہے۔ صدر شی جی پنگ اور جو بائیڈن کے مابین ہونے والی حالیہ ملاقات بھی اسی تنازع کو لے کر گرما گرم رہی۔

            چین، تائیوان اور امریکہ کی تاریخ کی داستان بس ابھی یہی تک پہنچی ہے۔ دیکھیے اب اس داستان میں نئے موڑ کیا آتے ہیں۔

متعلقہ عنوانات