چراغ شوق لہو سے جلا دیا ہم نے

چراغ شوق لہو سے جلا دیا ہم نے
اک اور قصۂ وحشت سنا دیا ہم نے


جو موج سر کو پٹکتی رہی ہے ساحل سے
اسی کو رو کش طوفاں بنا دیا ہم نے


نئے جو ہم سفر کیش عشق ہیں ان کو
مآل‌ سوز محبت بنا دیا ہم نے


بسان خانہ بدوشاں کئی ہے عمر اپنی
جہاں قیام کیا گھر بنا دیا ہم نے


بجھی بجھی سی رہے شمع آرزو سر بزم
سو روشنی کے لیے دل جلا دیا ہم نے


زمین شور لگی دشت آرزو میں جہاں
وہیں پہ عشق کا پودا لگا دیا ہم نے


چلے ہیں رہ‌‌ گزر شوق پر ہوا کی طرح
جو آیا سامنے راہیؔ ہٹا دیا ہم نے