چل یار چلیں
چل یار چلیں الفاظ کی دنیا سے باہر
جہاں خاموشی کے ڈیرے ہوں
جہاں لب پر چپ کے تالے ہوں
جہاں آنکھ زباں کا کام کرے
جہاں انگڑائی میں باتیں ہوں
جہاں حرف فقط بے معنی ہوں
جہاں عشق کا رنگ روحانی ہو
جہاں روحیں جسم تبدیل کریں
جہاں گھنگھور گھٹا ہو ساون کی
جہاں بھادوں برکھا چھاتی ہو
جہاں نہریں روپ کی بہتی ہوں
جہاں ٹھنڈی دھوپ کی چادر ہو
جہاں حسن ہو تخت نشیں صنم
چل یار چلیں اس پار چلیں
یہ دنیا اب نہیں راس ہمیں