چارہ گر

اب کسے چارہ گر درد کہیں
درد ہوتا ہے ہر اک آن سوا
درد پہلے بھی تو ہوتا تھا بہت
سخت اور ایسا کہ جاں کا دشمن
موت آنے کے یقیں کا ہمدم
زندہ رہنے کے گماں کا دشمن
لیکن اس درد کی کچھ اور تھی بات
درد اٹھتا بھی ہے دل میں کہ نہیں اٹھتا ہے
ہونے پاتا ہی نہ تھا اس کا کسی پل احساس
ہونے پاتا نہ تھا اک آن یہ اوجھل احساس
کہ جو بیگانے ہوں دکھ کو نہ سمجھنے والے
ان سے دکھ درد نہ پائیں گے تو کیا پائیں گے
لیکن اب کوئی بھی بیگانہ نہیں
اور اس بات کا دکھ ہوتا ہے ہر آن بہت
اور دل ہوتا ہے رہ رہ کے پریشان بہت
کہ نظر آتے ہیں یوں زیست کے سامان بہت
اور پھر زیست کے سامان یکایک
دیکھتے ہی دیکھتے ہو جاتے ہیں پتھر کیونکر
یوں نظر آتے تو ہیں زیست کے سامان بہت
پھر بھی جینے سے ہے بیزار ہر اک جان بہت


اور اب کوئی بھی بیگانہ نہیں
درد ہوتا ہے ہر اک آن سوا
اب کسے چارہ گر درد کہیں