چار سو بارود کی بو چار سو خوف و ہراس

چار سو بارود کی بو چار سو خوف و ہراس
بند دروازوں کے پیچھے مرد و زن سب بد حواس


اس کے وعدوں پر نہ کر تعمیر آشا کا محل
ریت کے ٹیلے پہ کیوں رکھتا ہے اس گھر کی اساس


سب امیر شہر کے ظلم و ستم سے جاں بہ لب
سب امیر شہر کے آگے مگر محو سپاس


یوں سیاسی فیصلوں نے عمر بھر روندا ہمیں
اس زمین علم و فن میں ہم اگے جیسے کہ گھاس


اپنے ہی اعمال سے لکھتے ہیں ہم اپنا نصیب
اپنے کاندھوں پر اٹھا رکھا ہے خود اپنا کراس


آؤ اپنائیں مروت دوستی انس و وفا
آؤ بھر لیں زندگی میں رنگ رس خوشبو مٹھاس


بڑھ گیا اس پار لے کر ناؤ وہ اپنی شبابؔ
میں کھڑا ہی رہ گیا تنہا لب ساحل اداس