شجر یہ چار سو باد خزاں کے مارے ہوئے

شجر یہ چار سو باد خزاں کے مارے ہوئے
سپاہی جیسے نہتے عدو سے ہارے ہوئے


اب آ بھی جا مری جاں اک زمانہ بیت گیا
بٹھا کے پہلو میں تیری نظر اتارے ہوئے


ضرور میری کسی بات پر خفا ہو تم
وگرنہ کیوں مرے دشمن مرے ستارے ہوئے


یہ سرد رات دسمبر کی کاٹ دی میں نے
ترے بدن کی تپش روح میں اتارے ہوئے


رہے پرکھتے بس اک دوسرے کو دور سے ہم
نہ تم ہمارے ہوئے اور نہ ہم تمہارے ہوئے


لبوں پہ ان کے سدا قلتوں کا رونا ہے
یہ لوگ کثرت اولاد کے ہیں مارے ہوئے


جدائی دے گئے صدیوں کی تم تو جان شبابؔ
جنم گزر گئے کتنے تمہیں پکارے ہوئے