چالیسواں دن
آج مجھے اس گھر میں آتے ہوئے چالیسواں دن تھا۔ اس سے پہلے میں اس گھر میں سوئم، قل اور جمعراتوں میں بھی مدعو تھا ۔ آج کا دن بھی بڑی اہتمام سے منانے کی تیاری ہورہی تھی ۔ دور اور نزدیک کے تمام عزیز و اقارب آہستہ، آہستہ جمع ہورہے تھے ۔ گھر میں مرحوم کے ایصال ثواب کے لیے بڑا اہتمام کیا گیا تھا ۔ مرحوم کی تدفین سے لے کر اب تک بڑی ہی محنت سے پڑھائی کی گئی تھی ۔ کہیں سوا لاکھ ختم ہوئے تھے تو کہیں قرآن پاک ختم ہورہے تھے ۔
مسجدوں میں مغفرت کی دعائیں کی جارہی تھیں اور تو اور عزیز و اقارب کی اس محنت شاقہ کی لوگ دل کھول کے تعارف کررہے تھے اب ان بے چارے لوگوں کو کیا معلوم کہ یہ جو سوگ کے لباس میں ملبوس ہر جمعرات کو پڑھائی کرتے، کرتے ہلکان ہورہے ہیں کبھی مہینوں میں ایک دفعہ بھی مرحوم سے ملنے ان کے گھر نہیں آئے۔ بیچارے مرحوم جو اپنے زنداں نما گھر میں قید ہو کے رہ گئے تھے ۔ جو اپنے پیاروں کی ایک آہٹ پر اٹھ کر بیٹھ جاتے تھے ۔ آج ان کے بعد ان کے خاموش کمرے میں تنہائی بھی اپنی جگہ کی تلاش میں بوکھلاتی پھر رہی ہے ۔ مرحوم جو تنہائی کے اسیر ہو چکے تھے۔ آج تنہائی ان کے گھر کے باہر بھی دور تک نظر نہیں آتی۔‘،
میں بھی کہاں خیالوں کی رو میں بہہ گیا۔ میں نے اپنا سر جھٹکا اور ماضی سے حال میںآگیا ۔ چالیسویں کی تیاریاں اپنے عروج پر تھیں۔
گھر میں صبح سے کافی چہل پہل تھی ۔ ملازموں کو دریوں ، شامیانوں کے انتظام کیلیے بھیجا جا چکا تھا۔ اور ان کی کڑی نگرانی کا کام مرحوم کے سب سے چھوٹے صاحبزادے کا تھا۔ منجھلے صاحبزادے ملازم کو برتنوں کی صحیح گنتی کرنے کی تاکید کررہے تھے ۔ جبکہ چھوٹی بھابھی صاحبہ گھر کے اندر زنانہ اور باہر مردانہ بیٹھنے کے انتظام کا جائزہ لے رہی تھیں ۔
مرحوم کا چھوٹا نواسہ قرآن کریم کے پارے مسجد سے لانے گیا ہوا تھا ۔ خاندان کی ایک بزرگ خاتون جو کہ مرحوم کی تائی ہوتی ہیں وہ صحن میں چوکی پہ براجمان ہدایات جاری کررہی تھیں ۔ بڑی بہو پھلوں کو صفائی سے دھوکر ان کی قاٹیں بنا کر رکھتی جارہی تھیں اور ساتھ ساتھ آنسو بہاتی جارہی تھی’’ہائے ابا مرحوم آپ اتنی جلدی چلے گئے ابھی تو آپ کی شفقت کے سائے میں ہمیں اپنے شب و روز گزارنے تھے ۔‘‘ لو بھلا مرحوم جب زندہ تھے تو یہی بہو ناک بھوں چڑھا کر گزر جاتی تھی ۔ پھل تو دور کی بات، کھانا بھی اپنے ہاتھ سے دینا اسے گوارا نہیں تھا۔
’’ابا تو وبالِ جان ہوگئے ہیں ۔ مر تے ہی نہیں، خدا ان کی مشکل آسان کرے تاکہ ہماری مشکلیں خود ہی آسان ہو جائیں۔‘‘
آج اسی بہو کی زبان اتنی شریں کیسے ہوگئی میں حیران سا صحن میں آکے بیٹھ گیا۔
مرحوم کے چھوٹے بھائی فاتحہ کا سامان مارکیٹ سے لے کر پہنچے تھے ۔ بڑی سی گاڑی سے اترتے ہوئے ان کا سر فخر سے بلند تھا۔
’’بڑا اچھا بھائی ہے دیکھو تو اس کی اعلیٰ ظرفی تدفین سے لے کر اب تک پیسہ پانی کی طرح بہائے چلے جارہا ہے ۔ اعلیٰ اقسام کے پھل اور نذر و نیاز کا ہر سامان اس نے اول دن سے اپنے ہی ذمہ لیا ہوا ہے ۔‘‘ پڑوس کے خالق صاحب، ابراہی صاحب سے مخاطب تھے ۔ میں حیران پریشان سا صحن سے اٹھ گیا’’یہ چھوٹا بھائی اتنا فیاض کب سے ہوگیا ۔ مرحو م کی زندگی میں تو ان کے کمرے میں جھانکنا بھی اسے پسند نہیں تھا۔ بس پیسے بٹورنے کی خواہش میں خوشامدی بنا آگے پیچھے گھومتا تھا ۔ اور آج ٹوکروں کے ٹوکرے لوگوں کے نوشِ جان کررہا ہے۔ وائے ری قسمت ، یہ فیاضی، یہ چاہتوں کے منظر کبھی مرحوم کے نصیب میں نہ تھے۔
مرحوم جو بینک میں اعلیٰ عہدے پر فائز تھے جب تک ان کی ہمت رہی احباب و عزیز کاگھیرا ان کے ارد گرد تنگ رہا۔ ہر دوست ہر عزیز اپنے کام کی تکمیل کی خواہش لیے ان کے در پر کھڑا ہوتا اور مرحوم بڑی ہی خوش دلی کے ساتھ ان کے کاموں کو انجام دینے کا بیڑہ اٹھالیتے۔ کسی کو بینک سے لون چاہیے ہوتا تو کسی کی بیٹی کی شادی کا مسئلہ ہوتا ۔ کسی کا بھانجا نوکری کی تلاش میں بھٹک رہا ہوتا تو کسی کو پیسے کی خواہش ان کے در پر کھینچ لاتی ۔ مرحوم اپنے دوستوں میں اپنی زندگی بھر باغ وبہار طبیعت کی وجہ سے مشہور تھے اس لیے دوستوں کی محفلوں میں ہاتھوں ہاتھ لیے جاتے یہی دوست جن کے ہر کام مرحوم صاحب کی شمولیت کے بنا ادھورے ہوتے تھے، وہی دوست ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد ان کو ادھورا چھوڑ گئے ۔ دوستوں اور پھر رشتے داروں کی دوری پر مرحوم بہت دکھی ہوگئے تھے ۔ یہ دنیا کتنی احسان فراموش اور دغا باز ہے اچھا ہی ہوا ان منافق دوستوں سے جان چھٹی مگر دل تو بہت دکھا ہوا تھا ۔ لیکن مرحوم با حوصلہ اور با صلاحیت انسان تھے انہوں نے آہستہ، آہستہ خود کو سنبھال لیا ۔ مگر خود کو اس درد سے بچا نہیں سکے جو تبدیلی عزیز و رشتہ داروں کے رویوں میں دھیرے دھیرے آنا شروع ہوئی پھریوں ہوا کہ احباب، پرانے دوست رشتے دار اور اولاد سب ہی اپنی، اپنی زندگیوں میں ایسے مصروف ہوئے کہ کسی کے پاس بھی مرحوم کو دیکھنے اور ان کی خیریت دریافت کرنے کا وقت بھی نہیں بچا ۔ تینوں بیٹے اعلیٰ تعلیم اور ملازمتوں کے سلسلے میں ا ندرون ملک اور بیرون ملک مصروف ہوگئے ۔ دونوں بیٹیاں سسرال کو ایسی پیاری ہوئیں کہ انہوں نے پلٹ کر باپ کو دیکھا ہی نہیں ۔ باپ کی بوڑھی چال کو دیکھتے ہوئے بچوں نے جائیداد کی تقسیم کا تقاضہ شروع کردیا۔ دوست اور رشتے دار تو پہلے ہی سے دل برداشتہ تھے۔ انہوں نے بھی بچوں کے اس مطالبے میں ان کا ساتھ دیا ۔ یوں مرحوم نے سب کے سامنے اپنی محنت و مشقت سے کمائی ہوئی دولت اولاد میں تقسیم کرکے خونی رشتوں کو ہمیشہ کے لیے خیر باد کہہ دیا ۔ وہ رات مرحوم کی زندگی کی سب سے بھاری رات تھی مرحوم کو اس رات اپنی بیوی کی یاد ستاتی رہی وہ کروٹ پر کروٹ بدلتے رہے کبھی بیوی کو مخاطب کرکے اور کبھی اللہ سے شکوے کرتے رہے ۔ اپنی ایمانداری اور رزق حلال کرنے کی خواہش میں حلال طریقے سے کمائی گئی دولت کو یوں عیش پرستوں کے ہاتھوں میں سونپتے ہوئے وہ بہت روتے تھے اور اس دکھ کو دل میں د بائے دبائے جب انہوں نیسونے کی کوشس کی تو دل کی بیماری نے ان کو دبوچ لیا ۔
باپ کی بیماری پر تیزی سے خرچ ہوتے نوٹوں پر بیٹوں کی آنکھیں وا ہوگئیں تو پہلا مطالبہ یہی ہوا کہ ابا گھر بیچ دیتے ہیں ۔ یوں سب کو ان کے حصے مل جائیں گے اور آپ کو بھی ایک معقول رقم مل جائے گی ۔ جس سے آپ کے علاج و معالجے میں آسانی ہو جائے گی اور پھر بوڑھے باپ کی واویلا بچوں کی چیخوں پکار میں د ب کر رہ گئی اور آخر گھر بک گیا ۔ بچے اپنا، اپنا حصہ لے کر اپنے گھروں کو سدھارے اور مرحوم بے یارو مدد گار ایک چھوٹے سے فلیٹ میں منتقل ہوگئے۔
وہ اولادجو باپ کے زیر سایہ پروان چڑھی جن کی ہر صبح باپ کی ڈھیروں دعاؤں سے ہوتی ۔ وہ آج اپنے اپنے گھروں کو پیارے ہو چکے تھے ۔ وہ باپ جو اپنی اولاد کے ہر دکھ کو بغیر ان کے کہے سمجھ لیتا۔ آنکھوں میں اشک آنے سے پہلے ان کا مطالبہ پورا کردے گا۔ آج اس اولاد کو باپ کی سوجی ہوئی آنکھیں نظر نہیں آئیں ۔
مرحوم جو دعوتوں کی شان مانے جاتے تھے آج ان کو اکیلے کمرے میں مقید کردیا گیا تھا۔ کوئی نہیں سمجھ سکا کہ ان کے اندر کتنے غم کے طوفان کروٹ لے رہے ہیں ۔ کتنا درد امڈ کے آرہا ہے ۔ کتنی تکلیف اور اذیت کے عالم میں وہ اپنے دن رات بسر کررہے ہیں۔
دونوں ہاتھوں سے دولت لٹانے والے آج دونوں ہاتھ کمر پر رکھ کر بھی خود کو سہارا نہیں دے پارہے۔ اور پھر وہی ہوا جس کا مرحوم کو ڈر تھا اور جس کا سب کو انتظار تھا۔ ٹھیک چالیس دن پہلے مرحوم بے ضمیر اور بے حس دنیا سے بیزار ہو کر نہایت ہی مایوسی کی حالت میں دار فانی سے رخصت ہوگئے ۔
میں گھر کے ہنگامے سے بے نیاز ایک طرف بیٹھا ۔ یہی سوچ رہا تھا کے مرحوم جب تک زندہ تھے تو کسی کے پاس ان کی عافیت پوچھنے کا وقت تک نہ تھا ۔ لیکن ان کے مرنے کے بعد آج ان کے گھر میں جتنا ہنگامہ ہے کاش یہ ان کی زندگی میں ہوتا یہ سارے رشتے دار جو ہر جمعرات کو یہاں جمع ہو رہے ہیں ۔ مہینے کی ایک جمعرات بھی ان کے گھر پر آجاتے، آج ان کی اولادان کے نام پر جو کھانے مسجدوں میں بھجوا رہی ہیں ۔ یہی ان کی زندگی میں ان سیایک وقت کا اگر کھانا پوچھ لیتی تو وہ دنیا سے اتنے مایوس تو نہ جاتے۔
قرآن خوانی شروع ہو چکی تھی ۔ پارے تو کم ہی لوگ پڑھ رہے تھے ۔ زیادہ ترپڑھتے ہوئے اک دوسرے کے کانوں میں چہ مگوئیاں کررہے تھے ۔خواتین خاص آج کے دن سلائے گئے کپڑوں کے بارے میں باتیں کررہی تھیں ۔
بڑی بہو کہہ رہی تھی جلدی میں ڈوپٹہ پیکو نہیں کروا سکی۔ چھوٹی بہواپنی سلیقہ مندی کے گن خود ہی گارہی تھی ۔ جبکہ دونوں بیٹیاں زارو قطار رو رہی تھیں۔ آج ان کو باپ کی کمی شدت سے محسوس ہورہی تھی ۔ جیسے ہی مولانا صاحب نے فاتحہ شروع کی سب نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھا لیے۔ بعد اختتام فاتحہ ،مہمانوں کی خوب تواضع کی گئی ۔ سب لوگ گھر والوں کو صبرو جمیل اور مرحوم کو جنت میں جگہ ملنے کی دعا دیتے ہوئے رخصت ہوگئے ۔ تب بڑے بیٹے نے آگے بڑھ کر چچا کی تعریفیں شروع کردیں۔’’کیا کہنے چچا جان! کیا خوب آپ نے انتظام سنبھالا، سب شکر ادا کررہے تھے ، عزت و آبرو کے ساتھ تمام کام انجام پائے چھوٹا بیٹا بھی نازاں تھا کہ آج ہم سب کے سامنے سرخرو ہوگئے سارے رشتے دار تعریفی الفاظ عنایت کرتے جارہے تھے۔ جبکہ میرا دل خون کے آنسو رو رہا تھا ۔ یہ سارے لوگ جو خدمت کی داستانیں داغ رہے ہیں ان کا تو کبھی وجود تھا ہی نہیں، فرضی خدمت اور جھوٹی تسلیاں یہ سارے ایسے سنا رہے ہیں جیسے ان کو تو کبھی مرنا ہی نہیں ہے ۔بے رخی، خود غرضی اور اولاد کی بے اعتنائی کا زہر جب ان کو ملے گا تو تب یہ جان جائیں گے کہ زندگی کتنی کٹھن ہوتی ہے اور انسان کتنا ہی مضبوط کیوں نہ ہو وہ بھی زندگی سے ہار جاتا ہے۔
میں حیران، پریشان سا مایوسی، تنہائی اور دنیا کی بے اعتنائی کا زخم جو اب کبھی مندمل نہ ہوسکے گا ۔ دروازے کی طرف قدم اٹھاتے ہوئے میرے دماغ میں بس یہی تھا ۔
مرحوم کے جسدِ خاکی سے پرواز ہوئے آج میرا یہاں چالیسواں اور آخری دن بامشکل گزر گیا۔ بس اب اور نہیں رک سکتا کبھی نہیں۔۔۔!
اس گھر میں واپسی کا خیال میرے لیے مشکل ہی نہیں اب نا ممکن بھی ہے ۔