میں اپنی وفاؤں کا بھرم لے کے چلی ہوں

میں اپنی وفاؤں کا بھرم لے کے چلی ہوں
ہاتھوں میں محبت کا علم لے کے چلی ہوں


چلنے ہی نہیں دیتی تھی اک وعدے کی زنجیر
مشکل تھا مگر بار ستم لے کے چلی ہوں


کیا پوچھتے ہو مجھ سے مرے زاد سفر کا
اسباب میں بس یاد صنم لے کے چلی ہوں


جس شہر کے ہر موڑ پہ کانٹے ہی بچھے ہیں
اس شہر میں بھی زخمی قدم لے کے چلی ہوں


کوئی بھی سفر میں نے ادھورا نہیں چھوڑا
چلنا ہے تو منزل کی قسم لے کے چلی ہوں


مجھ کو ہے یقیں حرف کی حرمت پہ ہمیشہ
تنہا تھی مگر اپنا قلم لے کے چلی ہوں


خوش بخت ہے وہ جس کے مقدر میں ارمؔ ہے
میں ساتھ میں اک باغ ارم لے کے چلی ہوں