بریکس سمٹ: کیا چین اور پاکستان کی دوستی کمزور پڑنے لگی ہے؟

تئیس سے چوبیس جون عالمی اہمیت   کا حامل چودھواں بریکس سمٹ ہوا۔ میزبانی اس کی چین نے کی اور شرکت بھارت، جنوبی افریقہ، برازیل اور روس نے کی۔  بریکس  پانچ ابھرتی ہوئی معیشتوں کا اتحاد ہے جسے مغربی طاقتوں کے اثرورسوخ تلے کواڈ اور جی 7 جیسے  اتحادوں کے مد مقابل سمجھا جاتا ہے۔  اس چودھویں اجلاس میں یہ بات اور بھی واضح نظر آئی جب چینی صدر شی جی پنگ نے اپنے خطاب میں کواڈ کو کھل کر تنقید کا نشانہ بنایا اور مغربی طاقتوں کو معیشت کو بطور ہتھیار استعمال  کرنے پر برا بھلا کہا۔ مزید براں  یوکرائن جنگ کے دوران، جب مغربی طاقتیں روس پر پابندیاں لگا رہی ہوں، صدر پیوٹن کی شرکت    مد مقابل ہونے کا تاثر اور بھی بڑھا دیتی ہے۔  اس کے علاوہ بریکس کے اس اجلاس کی طاقت کو اس طرح بھی ناپا جا رہا ہے کہ اس میں شریک ہونے والے ممالک دنیا کی آبادی کا تقریباً اکتالیس فیصد جبکہ عالمی معیشت کا چوبیس فیصد ہیں۔

بریکس اجلاس اور عالمی ترقی پر بات چیت:

بریکس اجلاس میں تو اس کے پانچ اراکین ہی شامل تھے لیکن  اس اجلاس کے ایک طرف  عالمی ترقی پر بات چیت کا بھی اہتمام کیا گیا۔ اس بات چیت میں پانچ  اراکین سمیت تیرہ مزید ممالک نے بھی شرکت کی۔ ان ممالک میں الجیریا،  ارجنٹینا، مصر، قازقستان، ایران، سینگال، انڈونیشیا،   ازبکستان ، کمبوڈیا، اتھوپیا، فیجی،  ملایشیا اور تھائی لینڈ شامل ہیں۔ فہرست کو دیکھنے سے یہ تاثر ملتا ہے کہ ان میں شاید کوئی ایسا ملک نہیں جو عالمی منظر پر کچھ زیادہ سیاسی یا معاشی اثر رسوخ رکھتا ہو۔ لیکن اس کا ایک اور پہلو یہ بھی ہے   کہ دنیا کے بہت سے کمزور ممالک جیسا کہ الجیریا وغیرہ امریکی اثر رسوخ سے بالاتر ہو کر اس قسم  کی بات چیت میں شامل ہو رہے ہیں۔

آج کل میڈیا میں ایک اور بھی بازگشت ہے کہ چین بریکس اتحاد کو بڑھانے کا خواہاں ہے۔ ایسا ہو سکتا ہے کہ چین  ان ممالک میں سے کسی کے لیے دیگر اراکین  کو آمادہ کرنے میں کامیاب رہے۔  ایسا ہو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی۔ کیونکہ یہ بھی ہلکی پھلکی بازگشت ہے کہ چین جس ملک کو اتحاد میں لانے کا خواہاں ہے وہ اور کوئی نہیں پاکستان ہے۔   اس کی دو تین موٹی موٹی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ پاکستان بائیس تئیس کروڑ آبادی والا ملک ہے جو آبادی کے اعتبار سے پانچویں نمبر پر آتا ہے۔  دنیا میں پاکستان سے زائد آبادی رکھنے والے تمام ممالک بریکس کا حصہ ہیں سوائے امریکہ کے۔ اس زاویے سے دیکھا جائے تو چین کی خواہش سمجھ میں آتی ہے۔ اسی طرح دوسری ممکنہ وجہ جو ہو سکتی ہے وہ یہ ہے کہ چین کسی ایسے ملک کو بریکس کا حصہ بنانا چاہتا ہے جس سے وہ اتحاد میں بھارتی اور روسی وزن کو کم کر سکے۔ ایسی صورتحال میں بھی پاکستان ایک  اچھا انتخاب ہو سکتا ہے۔

چودھواں بریکس اجلاس اور پاکستان:

چین پاکستان   کو بریکس کا حصہ بنانا چاہتاہے یا نہیں، یہ تو واضح نہیں۔ لیکن ایک عجیب و غریب  اور تشویش ناک بات سامنے آئی وہ یہ تھی کہ پاکستان بریکس میں کسی بھی حیثیت سے موجود ہی نہیں تھا۔ یاد  رہے یہ وہ اجلاس تھا جس میں نئے اراکین کو بریکس میں شامل کرنے کے حوالے سے بات چیت ہونا تھے۔ اتھوپیا اور کمبوڈیا جیسے چھوٹے ممالک، جو  عالمی سیاست میں بے ضررسمجھے جاتے ہیں، وہ پہنچ گئے لیکن پاکستان، جس کا  کو ہ ہمالیہ سے اونچا اور بحر ہند سے گہرا دوست میزبانی کر رہا تھا وہ موجود ہی نہیں تھا۔  جمعے کے دن اس حوالے سے  میڈیا میں خاصی چہ میگوئیاں بھی ہوتی رہیں۔ بعد میں دفتر خارجہ نے وضاحت کی کہ پاکستان کی اینٹری کو بریکس کے ایک رکن نے بلاک کر دیا تھا۔ اپنی وضاحت میں تو اس نے کسی ملک کا نام نہیں لیا۔ لیکن  اٹھائیس جون کے اخبار میں خارجہ دفتر کے اہم عہدے دار کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ وہ ملک اور کوئی نہیں بھارت ہے۔ یہ تو سیدھی سیدھی سفارتکاری کے محاذ پر پاکستان کی ناکامی ہے۔ وہ اپنے حلیف کو باور کروانے میں کامیاب ہی نہیں رہا  کہ وہ بھارت پر دباؤ ڈالے کہ وہ پاکستان کی اینٹری روک نہ پائے۔

چین کا بھارت کو اس حوالے سے نہ مناپانا دو باتوں میں سے ایک کی نشان دہی لازمی کرتا ہے۔ یا تو واقعے ہی بریکس کا میکنزم ایسا ہے کہ پانچ اراکین میں سے ایک بھی نہ چاہے تو وہ اقدام نہیں ہو سکتا اور دوسرا یہ کہ چین نے بھی پاکستان کو کوئی خاص اہمیت نہ دی ہو۔  اگر دوسری بات درست ہے تو یہ سفارت کاری کی بہت بڑی ناکامی ہے۔ اس کا مطلب  ہے کہ پاک چین دوستی کے شہد کی مٹھاس میں کہیں کھٹاس آئی ہے۔ پورے ملک کو تشویش ہونی چاہیے۔

دوسری طرف آپ بھارت کی سفارت کاری دیکھیں کہ وہ کامیابی سے بریکس  کی رکنیت کے فائدے بھی اٹھا رہا ہے  اور کواڈ کا بھی رکن ہے۔ امریکہ کا حلیف بھی بنا پھرتا ہے اور روس سے تیل اور اسلحہ بھی  لیتا پھرتا ہے۔ جبکہ پاکستان نہ امریکہ سے کچھ حاصل کر پا رہا ہے اور نہ چین سے۔ بہت تشویش ناک بات ہے۔

سیانے کہتے ہیں کہ بیماری کی علامات نظر آنے لگیں تو فوراً تدارک کی تدبیر کا سوچتے ہیں، نہ کہ انکار کی ذہنیت میں مبتلا ہو کر ایسا نہیں ہو سکتا، ایسا نہیں ہو سکتا کرتے پھرتے ہیں۔  جو کچھ پاکستان کے ساتھ ہو رہا ہے اسے سفارتکاری میں تنہائی کی بیماری کہتے ہیں۔ علامات نظر آ رہی ہیں، حکمرانوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہییں۔

متعلقہ عنوانات