بیتے دن جب بھی یاد آتے ہیں

بیتے دن جب بھی یاد آتے ہیں
اشک پلکوں پہ جھلملاتے ہیں


تیری یادوں کے چاند تاروں سے
شب فرقت کو ہم سجاتے ہیں


حال فصل بہار مت پوچھو
پھول کانٹوں میں منہ چھپاتے ہیں


تم جو کہتے ہو صرف کہتے ہو
ہم جو کہتے ہیں کر دکھاتے ہیں


ہم کہ فتنہ فساد کی باتیں
جہاں سنتے ہیں بھول جاتے ہیں


وہی تقسیم کے ہیں ذمے دار
ہم پہ الزام جو لگاتے ہیں


پھر سے تقسیم ہم نہ ہو جائیں
آج حالات یہ بتاتے ہیں


میری انگلی پکڑ کے چلتے تھے
اب مجھے راستہ دکھاتے ہیں


تیرے اشعار ہیں کہ اے زخمیؔ
ذوق والوں سے داد پاتے ہیں