بھولے پن سے یہ اسے محفل جاناں سمجھا
بھولے پن سے یہ اسے محفل جاناں سمجھا
حشر کی خوب حقیقت دل ناداں سمجھا
زندگانی کو خیال شب ہجراں سمجھا
موت آئی تو اسے خواب پریشاں سمجھا
گھر سے تن کر نکل آیا ہو کوئی مست شباب
کون کمبخت گریباں کو گریباں سمجھا
روز آفت ہے نئی روز قیامت ہے نئی
آج تک میں نہ مزاج شب ہجراں سمجھا
میں گنہ گار دم حشر بڑھاتا کیوں ہاتھ
ابر رحمت کو مگر آپ کا داماں سمجھا
ایک مدت ہوئی کہتے ہوئے افسانۂ غم
آج تک وہ نہ مرا حال پریشاں سمجھا
دامن اس شوخ کا سمجھا شفق گلگوں کو
ماہ نو کو کسی مہ وش کا گریباں سمجھا
عکس اس میں نظر آئے جو تری محفل کے
دل حیراں کو میں آئینۂ حیراں سمجھا
میں جو رہ رہ کے سناتا ہوں بیان شب غم
مسکرا کر کوئی کہتا ہے کہ ہاں ہاں سمجھا
خوف کچھ عہد تباہی کا نہ اس کو صفدرؔ
اپنے اللہ کو جو اپنا نگہباں سمجھا