بھرے ہوئے جام پر صراحی کا سر جھکا تو برا لگے گا

بھرے ہوئے جام پر صراحی کا سر جھکا تو برا لگے گا
جسے تیری آرزو نہیں تو اسے ملا تو برا لگے گا


یہ ایسا رستہ ہے جس پہ ہر کوئی بارہا لڑکھڑا رہا ہے
میں پہلی ٹھوکر کے باد ہی گر سنبھل گیا تو برا لگے گا


میں خوش ہوں اس کے نکالنے پر اور اتنا آگے نکل چکا ہوں
کے اب اچانک سے اس نے واپس بلا لیا تو برا لگے گا


یہ آخری کنپکنپاتا جملہ کہ اس تعلق کو ختم کر دو
بڑے جتن سے کہا ہے اس نے نہیں کیا تو برا لگے گا


نہ جانے کتنے غموں کو پینے کے بعد تابش چڑھی اداسی
کسی نے ایسے میں آ کے ہم کو ہنسا دیا تو برا لگے گا