بے وفا پائے گئے حسن کے پیکر کتنے

بے وفا پائے گئے حسن کے پیکر کتنے
پھر بھی وابستہ رہے ان سے مقدر کتنے


اٹھ گئے محفل دنیا سے سخنور کتنے
ان میں گزرے ہیں صداقت کے پیمبر کتنے


آج بن بیٹھے ہیں بت خانوں کی عظمت کے نشاں
میرے ہاتھوں کے تراشے ہوئے پتھر کتنے


غیر ممکن نہیں تسخیر زمانہ لیکن
آپ کے پاس ہیں اخلاق کے زیور کتنے


نیکیاں کرکے بھلا دینا ہے شیوہ جن کا
دیکھیے بستی میں ایسے ہیں تونگر کتنے


دور کر دیتے ہیں احباب و اقارب کو ندیم
منہ سے نکلے ہوئے الفاظ کے نشتر کتنے


امتحاں لے کے کئی بار فلک نے دیکھا
خاک کے پتلے میں پوشیدہ ہیں جوہر کتنے


رہنمائی کا کبھی دعویٰ کیا کرتے تھے
بیچ طوفان کے ہم راہ تھے رہبر کتنے


پر سکوں دور کی حسرت میں خدا جانے عزیزؔ
دیکھنے ہوں گے ہمیں خون کے منظر کتنے