بے نام سی خلش
’’ہیلو مس چودھری! ‘‘۔ ممبئی جیسے اجنبی شہرمیں ریلوے اسٹیشن پر ایک خوب رُو نوجوان کو اپنے کو وِش کرتے دیکھ کر وہ حیران رہ گئی۔ بہت دیر سے وہ روبی کے انتظار میں پلیٹ فارم کی ایک خالی بینچ پر بیٹھ کر پریشان نگاہوں سے ادھر اُدھر دیکھ رہی تھی۔
’’فرمائیے میں آپ کی کیا خدمت کرسکتا ہوں‘‘
’’آپ کی تعریف۔۔۔؟‘‘
’’ممبئی کے فائیو اسٹار ہوٹل میری مٹھّی میں ہیں‘‘
بے ساختہ صبیحہ کی نظر اُس کی مٹھی پر پڑی جو اب کھل چکی تھی۔ وہ شرمندہ ہوگیا
’’شکریہ مجھے کسی ہوٹل میں نہیں ٹھہرنا ہے۔‘‘
’’آشیانہ‘‘ میں بھی نہیں؟‘‘ 151151151اُس نے آہستہ سے پوچھا۔
وہ اُٹھ کھڑی ہوئی۔ اچانک اُسے یاد آیا کہ اس شخص نے پہلے تو اسے اس کے نام سے مخاطب کیا تھا اور اب روبی کے بنگلہ کا نام لے رہا ہے۔ وہ پریشان ہو اُٹھی۔
’’کون ہیں آپ اور میرے متعلق اتنی تفصیل سے کس طرح جانتے ہیں؟‘‘ پھر کچھ سوچتے ہوئے بولی۔ ’’آپ روبی کے بھائی جان ہیں!‘‘
’’جی ہاں۔ روبی کا ۔۔۔۔۔۔‘‘
اُس نے بے پروائی سے کہا اور وہ شرمندہ ہوگئی۔
’’چلیے گاڑی باہر کھڑی ہے۔‘‘
’’روبی نہیں آئی؟‘‘ اُس کی جھجھک دور ہوچکی تھی۔
’’نہیں۔‘‘ قدرے سنجیدہ اور مختصر جواب ملا۔ صبیحہ ایک ہی شخصیت کی پل بھر میں دو متضاد کیفیات دیکھ کر کچھ بے چین نظر آرہی تھی۔ اُس نے چپ چاپ دونوں سوٹ کیس اُٹھالیے۔ نواز نے پلٹ کر دیکھا تک نہیں۔ بھاری سوٹ کیس کار تک لاتے لاتے صبیحہ تھک گئی۔ وہ جھک کر کار کا دروازہ کھولنے لگا تھا۔ صبیحہ اُسے دیکھتی رہی اُس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ اس سامان کا کیا کرے۔ بالآخر نواز کی بے توجّہی ختم ہوئی اور وہ اس کے قریب آیا اور ڈکی کھول کر واپس چلا گیا۔ صبیحہ نے اس پر سرسری نگاہ ڈالی اور سوٹ کیس اٹھا کر اندر رکھ دیا۔ اِتنی دیر میں نواز اسٹیرنگ سنبھال چکا تھا۔ روبی نے اگلا دروازہ کھلا دیکھا تو اندر جا بیٹھی۔ ’ عجیب شخص ہے یہ بھی‘، وہ سوچنے لگی۔
گاڑی مین گیٹ کے سامنے رُکی تو صبیحہ نے روبی کو منتظر پایا۔ وہ دوڑ کر اس کے گلے لگ گئی۔ نواز بے تحاشہ کھانسنے لگا۔ صبیحہ جھنجھلا کر پرے ہٹ کر کھڑی ہوگئی۔ بنگلہ کے احاطے میں دائرہ نما چمن اور اُس میں کھلے طرح طرح کے گُلاب دیکھ کر وہ باغ باغ ہوگئی۔ جیسے سفر کی ساری تکان دور ہوگئی ہو۔
’’اللہ کتنے خوب صورت ہیں!‘‘ صبیحہ نے بے تابانہ کہا۔
’’تو اپنے متعلق میری رائے غلط نہیں! ‘‘ نواز نے نہایت سنجیدگی سے کہا۔ روبی ہنسنے لگی تو اُسے کھانسی کا دورہ پڑگیا۔ نواز نے اُسے تھام لیا۔ صبیحہ کو بھائی بہن کی محبت پر بے حد پیار آیا۔
’’بھائی جان صبی آپ کے متعلق تھوڑے ہی کہہ رہی ہے۔‘‘، لیکن نواز نے سنی ان سنی کردی۔
’’کیا صبیحہ کو باہر ہی سے گھردکھانے کا ارادہ ہے؟‘‘ نواز کی بات پرروبی مسکرانے لگی۔
’’اپنی سہیلی کے لیے تو اسپیشل ڈشز تیار کر رکھی ہوں گی‘‘ چلتے چلتے نواز نے پوچھ لیا۔
’’ہاں، اور نہیں توکیا آپ کے لیے بناتی؟ آپ تو ٹھہرے۔۔۔۔۔۔‘‘
’’گھر کی مرغی!‘‘ نواز نے بات کاٹی۔
ہال کی خوبصورتی دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔ خوبصورت کارنسوں پر دیدہ زیب ہاتھی دانت، سنگِ مرمر اور شیشے کے کھلونے رکھے ہوئے تھے۔ تھوڑے تھوڑے فاصلے پر رنگین پتیوں سے آراستہ پودے، زمین پر خوش نما قیمتی قالین اور دیواروں پر خوبصورت فریموں میں خوش رنگ مناظر کی عکّاسی تھی اور چھت پر نزاکت سے تراشے ہوئے جھومر آویزاں ۔ ہلکے سبز رنگ میں ماحول خواب ناک ہو رہا تھا
’’کیسا لگا؟‘‘ روبی نے ستائش کی تمنّا میں پوچھا۔
’’کون؟‘‘، صبیحہ کی محویت ٹوٹی۔
’’پگلی! میں بھائی جان کے متعلق نہیں پوچھ رہی ہوں۔‘‘ روبی نے اُس کے چٹکی لی۔ صبیحہ نے گھبرا کر نواز کی طرف دیکھا۔ وہ ہونٹوں پر گہری مسکراہٹ سجائے، آنکھیں بند کیے آرام کرسی پر نیم دراز تھے۔ روبی نے صبیحہ کو اپنے بے موقعہ سوال پر شرمندہ ہوتے دیکھا تو نواز سے مخاطب ہوئی۔’’آپ یہاں کیا کر رہے ہیں بھائی جان؟ چلیے اُٹھیے لڑکیوں کی بات چیت کے درمیان آپ کی موجودگی چہ معنی دارد؟‘‘
’’اچھا لڑکی صاحبہ میں چلا! کھانے پر میرا انتظار نہ کرنا۔ ایک دوست کے گھر دعوت ہے۔ اُس کی بہن میرے لیے لذیذ کھانے دستر خوان پر سجائے میری منتظر ہوگی۔ خدا حافظ!‘‘ وہ اُٹھ کر جانے لگا۔
’’ارے نہیں نہیں بھائی جان!‘‘ روبی دوڑی۔ ’’آپ کو میری قسم!‘‘
’’تمہاری قسم سے تو میں رُکنے والا نہیں!‘‘
’’تو پھر؟‘‘
’’اپنی سہیلی کی قسم دے دو۔‘‘
’’ہائے اللہ بھائی جان! اسے کچھ ہوگیا تو خالہ جان میری جان لے لیں گی‘‘
’’مزے سے لے لیں۔ میری جان تو چھوٹے۔‘‘
’’بھائی جان پلیز۔ میں ابھی کھانا لگواتی ہوں۔ فیرینی بنائی ہے بھائی جان۔ آپ کو اُس کی قسم!‘‘
’’اچھا بھائی۔ اب فیرینی کی قسم دے دی ہے تو رُکنا ہی پڑے گا ورنہ زندگی بھر فیرینی بیگم ہم سے روٹھی رہیں یہ تو ہم سے برداشت نہ ہوگا۔‘‘
کھانے کی بڑی میز پر ایک طرف دونوں سہیلیاں بیٹھی تھیں اور دوسری طرف نواز ۔ نواز نے اپنی فیرینی کی پیالی ختم کی تو صبیحہ کی پارکرلی۔ صبیحہ کو زور سے ہنسی آئی۔ نواز حیرت زدہ رہ گیا۔ اُس نے معصومیت سے پوچھا۔
’’آپ ہنستی بھی ہیں۔۔۔؟‘‘
روبی جھنجھلائی۔ ’’کھانا تو چین سے کھانے دیجئے بھائی جان بے چاری کو!‘‘ نواز چپ ہوگیا اور آخر تک کچھ نہ بولا۔ صبیحہ کو خاموشی کَھلنے لگی۔
روبی کے بیڈ روم میں دونوں سہیلیاں لیٹی ہوئی تھیں۔ روبی نے اپنا البم نکالا۔ اور اپنے والدین کی تصویریں صبیحہ کو دکھاتے ہوئے اس کی آنکھیں نم ہوگئیں۔ وہ اُسے بتانے لگی کہ کس طرح اُس کے والدین ہوائی حادثہ کا شکار ہوگئے تھے۔ صبیحہ کے والد کو گذرے چار پانچ ہی مہینے ہوئے تھے وہ ایک متوسط طبقہ کی رُکن تھی تین بھائی اور ایک چھوٹی بہن تھی۔ بڑے بھائی ملازمت کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے تھے۔ صبیحہ کی والدہ نے روبی کو لکھا تھا کہ وہ اسے کچھ دنوں کے لیے اپنے پاس بلالے ورنہ یہ پگلی تو گھٹ گھٹ کر جان دے دے گی، صبیحہ اپنے والد کو یاد کرکے چپکے چپکے آنسو بہانے لگی۔ روبی اپنا غم بھول کر اُسے سمجھانے لگی۔ ’’تم تو خوش نصیب ہو صبی! تمہاری ماں تو تمہارے پاس ہیں۔ اتنے سارے بھائی بہن تو ہیں۔ مجھے دیکھو جو ہیں سو بھائی جان ہیں مگر ہاں یہ ضرور ہے کہ انہوں نے مجھے کبھی کسی چیز کی کمی محسوس نہ ہونے دی‘‘۔
صبیحہ نے روبی کے غم کو محسوس کرتے ہوئے اپنے آنسو پونچھ لیے۔
’’تیرے بھائی جان تجھے کتنا چاہتے ہیں تو چلی جائے گی تو بے چارے بالکل اکیلے رہ جائیں گے۔‘‘
روبی ہنس دی ’’بھائی جان مجھے اپنے سے الگ ہی کب کریں گے۔‘‘
’’پھر بھی ایک نہ ایک دن تجھے شادی تو کرنی ہی پڑے گی۔‘‘
’’بھائی جان کہتے ہیں میں اپنی پیاری بہن کے لیے ایسا دولہا تلاش کروں گا جو اسے اپنے گھر لے جانے کی بجائے خود آکر یہیں رہے۔‘‘ صبیحہ نے روبی کے چہرے پر مسرّت کی بے شمار کرنیں دیکھیں اور تصوّر میں نواز کو شریر نظروں سے مسکراتا ہوا محسوس کرنے لگی۔
دوسرے دن اتوار تھا۔ تینوں نے سیکنڈ شو دیکھا، مزاحیہ فلم تھی۔ سب نے انجوائے کیا۔ پھر وہاں سے وہ سب مل کر گیٹ وے آف انڈیا چلے گئے۔ سمندر کی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں صبیحہ کے دل کو گد گدانے لگیں۔ لانچ میں بیٹھ کر انہوں نے سمندر کی سیر کی۔ گھر پہنچتے پہنچتے بارہ بج چکے تھے۔ صبح روبی بخار میں پھنک رہی تھی۔ کچھ ہی دنوں پہلے اسے فلو ہوا تھا۔ کل بھی اسے بخار سا محسوس ہو رہا تھا۔ اسی وجہ سے وہ صبیحہ کو رِسیو کرنے نہ جاسکی تھی۔ لیکن صبیحہ کو تو صرف دس دن یہاں رہنا تھا۔ اُسے کمپنی دینے کی خاطر وہ پکچر چلنے کی ضد کرنے لگی تھی اور نواز نے روبی کی ضد پوری نہ کی ہو ایسا کبھی نہ ہوا تھا۔ اور نتیجہ سامنے تھا۔ نواز پریشان ہو رہا تھا۔ ڈاکٹر نے مکمّل آرام کا مشورہ دیا تھا اور ٹائیفائیڈ کا خطرہ بتایا تھا۔
’’بھئی صبی! اپنی تو چھٹّی ہوگئی۔ اب تم اکیلے کیسے دیکھو گی یہ شہر؟‘‘
’’ہم کیا مرگئے ہیں؟‘‘ نواز قریب ہی بیٹھا دواؤں کے لیبل پڑھ رہا تھا۔
’’اچھا آئیڈیا ہے بھائی جان! اگر آپ کو کوئی اعتراض نہ ہو تو صبی کو کمپنی دے دیجے نا۔‘‘
’’نہیں روبی میں کہیں نہیں جاؤں گی۔‘‘ صبیحہ آہستہ سے بولی۔
’’ہاں بھئی مجھے بھی اعتراض ہے‘‘
’’کیوں بھائی جان‘‘؟
’’نا بابا جوان جہان لڑکی کے ساتھ گھومتے پھرتے دیکھیں گے تو لوگ کیا کہیں گے۔‘‘
’’دقیانوسی مت بنئے بھائی جان۔ بچّی دعائیں دے گی آپ کو۔‘‘
’’اچھا؟ پھر تو قبول ہے ، قبول ہے، قبول ہے!‘‘
’’یہ آپ تین بار قبول ہے کیوں کہہ رہے ہیں! میں کوئی قاضی تو نہیں۔‘‘
’’گواہ تو بن سکتی ہو نا؟‘‘
’’صرف گواہ! واہ بھائی جان خوب کہی آپ نے بھی!‘‘
دونوں کو اپنے متعلق اتنی بے باکی سے باتیں کرتے دیکھ کر صبیحہ اُٹھ کر باغ میں چلی آئی۔
بڑی مشکلوں سے روبی نے اپنی قسمیں دے کر صبیحہ کو نواز کے ساتھ جانے پر راضی کیا۔ سب سے پہلے نواز اُسے جوہو لے گیا۔ صبیحہ خاموش خاموش سی تھی۔ پانی میں نواز اس کا ہاتھ تھام کر دور تک لے گیا وہ بس بس کرتی ہی رہ گئی لیکن نواز اُسے کھینچتا ہوا بڑھتا ہی چلا گیا۔ لہروں کے شور میں صبیحہ کا احتجاج ڈوب گیا اور لہریں ان پر نچھاور ہوتی چلی گئیں۔
روبی گھر پر اپنی آیا کی نگرانی میں رہتی تھی۔ وہ ایک خاصی مقبول شاعرہ تھی۔ روزانہ بہت سے خطوط اُس کی بیماری سے متعلق آتے، بے شمار شعراء اور ادباء کا اُس کے گھر جمگھٹا لگا رہتا۔ اکثر وہ انہیں کھانے پر روک لیتی۔ دعوتیں ہوتی ہی رہتیں۔ لیکن جب سے وہ بیمار ہوئی تھی گھر میں اکثر خاموشی ہی چھائی رہتی۔ نواز اور صبیحہ بھی صبح کو نکلتے تو شام ہی کو لوٹتے۔ نواز نے دس دنوں کے لیے دفتر سے چھٹی لے لی تھی۔ اپنے ساتھیوں میں اس کا نام ہونہار انجینئر کی حیثیت سے لیا جاتا تھا۔ روبی کو رفتہ رفتہ یہ بات کَھلنے لگی تھی کہ نواز اس کی بیماری پر چھٹی لے کر اس کی تیمار داری کرتا رہتا لیکن اس بار اُس نے چھٹیاں تولیں مگراُس کی خاطر نہیں۔ صبیحہ کی خاطر۔ مسلسل بیماری نے اُسے چڑ چڑی بنادیا تھا۔
ایک صبح صبیحہ ناشتہ کی ٹرے لے کر روبی کے کمرے میں داخل ہوئی۔
’’کیسی طبیعت ہے اب؟‘‘ اُس نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔ روبی نے کوئی جواب نہ دیا، آنکھیں بند کرلیں۔
’’کیا بات ہے روبی؟‘‘
’’کچھ نہیں‘‘۔
’’نواز کے دوست کی شادی کی تقریب ہے نا۔‘‘
’’یہ نواز کہنا تم نے کب سے شروع کردیا ہے۔‘‘ صبیحہ کے رُخسار گلابی ہوگئے۔ وہ کیسے کہتی، نواز نے اپنی جان کی قسمیں دے کر اُس سے اپنا نام کہلوانا شروع کیا ہے۔
’’آج ہم لوگ تاج محل ہوٹل جائیں گے۔‘‘
’’تو میں کیا کروں۔ میں نے باندھ تھوڑے ہی رکھا ہے تمہیں۔‘‘
صبیحہ حیرت زدہ رہ گئی۔ شام کو اُس نے نواز سے طبیعت کی ناسازی کا بہانہ کرلیا ’’آؤ روبی چلیں۔‘‘
’’میری اب کیا ضرورت رہ گئی ہے بھائی جان۔‘‘ نواز نے روبی کے لہجہ کی اداسی محسوس کرلی تھی۔
’’ارے بھئی ایک ہی کمرے میں پڑے پڑے اکتا جاؤ گی۔آؤ، تمہارا سوپ کھانے کی میز پر رکھوادیا ہے لیکن خیال رہے دوسری ڈشز کی طرف نظر بھی مت ڈالنا، صبیحہ بہت لذید کھانا بناتی ہے۔‘‘
روبی صبیحہ کی تعریف سے دل ہی دل میں پیچ و تاب کھانے لگی۔
’’آؤ روبی!‘‘، صبیحہ نے اُس کا بازو تھاما تو اُس نے اُسے بے تحاشا جھڑک دیا۔ اُس کی نظریں صاف کہہ رہی تھیں، ’ میرے چہیتے بھائی کی محبت مجھ سے چھین لینے والی ڈائن تُو ہی تو ہے۔‘
’’ارے میری بہنا! اب کچھ ہی دن تو ہمارا ساتھ رہے گا۔‘‘، روبی چونکی۔ ’’سکندر چچا تجھے اپنے گھر لے جانے کے لیے مضطرب ہیں۔ پھر آگرہ میں بیٹھ کر اپنے میاں کے ساتھ کھانا کھاؤگی۔‘‘
روبی کی حالت غیر ہوگئی۔ وہ بھائی جو اُسے کبھی اپنے سے الگ کرنے کی بات نہ کرتا تھا۔ اب ڈاکٹر جمشید کے ساتھ بیاہ کر اُسے آگرہ بھیجنا چاہتا ہے۔ اُس سے ضبط نہ ہوسکا اور وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
اُسے ان سب باتوں کی ذمّہ دار صرف صبیحہ نظر آتی۔ صبیحہ! جو کبھی اُس کی پیاری سہیلی تھی اور جسے وہ اپنے بھائی جان کے لیے پسند بھی کرچکی تھی، وہ آج اُسے اپنی سب سے بڑی دشمن نظر آرہی تھی۔
صبیحہ کی چھٹیاں ختم ہوچکی تھیں۔ وہ دل میں ایک بے نام سی خلش لیے گھر لوٹ آئی تھی۔ نواز نے وعدہ کیا تھا کہ روبی کے صحت یاب ہوتے ہی وہ اس کے گھر آئے گا اور اُس کی امّی سے اُسے مانگ لے گا۔ وہ کھوئی کھوئی سی رہنے لگی تھی۔ نواز کے ساتھ گذارے ہوئے ہر لمحہ کی یاد کو اُس نے دل کے نہاں خانے کے کسی نرم گوشے میں چھپا رکھا تھا۔ کبھی کبھی روبی کی زہریلی باتیں اُسے دکھ پہنچاتیں لیکن وہ اُسے بیماری کا چڑ چڑا پن کہہ کر دل کو تسلّی دی لیتی آخر یہی تو لڑکی تھی جو ہمیشہ اپنے بھائی کی باتیں اُس کے سامنے کرتی اور بھائی کی پسند سے اس کے اپنے کردار، خدو خال، رنگ روپ اور تعلیم و تربیت کا موازنہ کرتی رہتی ۔
بالآخر ایک دن دونوں بھائی بہن اُن کے گھر آپہنچے۔ امّی نے خوب خاطر مدارات کی۔ اُنہیں نواز کی آمد کے مقصد کا انداز ہوگیا تھا۔ وہ بہت خوش تھیں ۔بیٹی کی حالت کچھ اُن سے چھپی ہوئی تو نہ تھی لیکن روبی جو اکثر چھٹّیاں اُن کے یہاں گذارا کرتی تھی اور صبیحہ کی امّی سے بہت گھل مل کر باتیں کرتی رہتی تھی، اس بار اس کا سپاٹ چہرہ دیکھ کر انہیں ہول آتا تھا۔
آج دوپہر نواز کو کسی سے ملنے جانا تھا، کھانا باہر ہی کھانے والے تھے۔ سب دستر خوان پر بیٹھے تھے۔ روبی صبیحہ سے دور ارشد اور امجد کے درمیان بیٹھی تھی۔
’’خالہ جان ، بھائی جان کے لیے اتنی خوبصورت، امیر اور تعلیم یافتہ لڑکیوں کے پیام آرہے ہیں کہ کہہ نہیں سکتی۔‘‘ روبی کے بڑی بوڑھیوں کے سے انداز کو صبیحہ اور اُس کی امّی نے بُری طرح محسوس کیا۔
’’کیوں نہ آئیں بیٹی۔ نواز ہے بھی تو لاکھوں میں ایک!‘‘
’’ہاں، تبھی تو۔‘‘ روبی نے صبیحہ کو دیکھا ’’لڑکیاں بھائی جان کے گرد یوں منڈلاتی ہیں جیسے بھوکی بلّی چوہے کو دیکھ کر جھپٹ پڑے۔‘‘ صبیحہ کا نوالا حلق سے نیچے نہ اُتر سکا۔
’’اور پھر لڑکا امیر ہے، تنہا ہے۔ سارے خاندان کی کفالت کرسکتاہے۔‘‘
صبیحہ کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں۔ امّی نے حیرت سے روبی کی طرف دیکھا اور پھر موضوع بدلنے کے خیال سے مسکرا کر پوچھا:
’’تمہاری شادی کب کر رہے ہیں نواز‘‘
’’میری شادی؟ ہاں ۔ پچھلے دنوں جمشید بمبئی آئے تھے تو میں نے ان سے صاف کہہ دیا کہ میں یہ گھر چھوڑ کر نہیں جاؤں گی! وہ بھی راضی ہوگئے ہیں۔‘‘ امّی مسکرانے لگیں جوان لڑکی کا اپنی شادی کی نسبت اتنے کھلے الفاظ میں کہنا اُنہیں عجیب سا محسوس ہوا۔
’’تو بیٹی تم ممبئی ہی میں رہوگی؟‘‘
’’ہاں‘‘ بڑے طنز سے کہا گیا!!میرے والد جائیداد میں میرا بھی تو آدھا حصّہ لکھ گئے ہیں۔‘‘
’’امّی چونک گئیں ۔ روبی نے اُن کے الفاظ کا غلط مطلب اخذ کرلیا تھا۔ وہ خیالات میں گم ہوگئیں۔ سب بچے چپ چاپ کھانا کھانے لگے۔ کھانا کافی لذیذ تھا لیکن روبی، صبیحہ اور امی ایک ایک نوالہ زہر سمجھ کر نگل رہی تھیں۔ آخر روبی نے خاموشی توڑی۔
’’خالہ جان ہمارے آنے کا مقصد تو آپ سمجھ ہی گئی ہوں گی۔۔۔۔۔۔‘‘ امّی کا دل زور سے دھڑکا۔
’نہیں تو‘‘!
روبی ہنسی، ’’صبیحہ بھائی جان سے ۔۔۔۔۔۔ میرا مطلب ہے بھائی جان صبیحہ کا ہاتھ مانگنا چاہتے ہیں‘‘
صبیحہ کا جی چاہا زمین پھٹ جائے اور اُسے اپنے میں سمولے!
’’ارے بھئی روبی! تمہیں ایک خوش خبری تو دینا بھول ہی گئی۔ صبیحہ کو مبارکباد دو۔ اس کا رشتہ میں نے اپنی سہیلی کے بیٹے سے طے کرلیا ہے؟‘‘
روبی کی سمجھ میں نہ آیا کہ وہ کس طرح Reactکرے ۔ صبیحہ اُٹھ کر دوسرے کمرے میں چلی گئی۔ روبی کو کھاتا ہواچھوڑ کر امّی بھی اُٹھ گئیں۔
صبیحہ اپنے کمرے میں پلنگ پر لیٹی نیلے شفّاف آسمان کو گھورے جا رہی تھی۔ اور امّی دروازے میں کھڑی دیر سے اُسے دیکھ رہی تھیں۔ آخر اُن سے صبر نہ ہوسکا اور ’’صبی۔ میری بچّی۔‘‘ کہتی ہوئی وہ اس کی طرف لپکیں۔ صبیحہ اُٹھ بیٹھی۔ دیر تک وہ ان کی طرف دیکھتی رہی۔ آخر آہستہ سے پوچھا ’’کون سی سہیلی امّی؟‘‘
’’کوئی نہیں بیٹا۔ لیکن اس لڑکی کے رہتے تو ساری زندگی خوش نہ رہ سکے گی‘‘
’’امّی!‘‘ کہہ کر وہ ماں کے سینے سے لگ گئی ، کشادہ دریچے میں دور سے نواز اپنی کار سے دھول اڑاتا دکھائی دیا۔ صبیحہ کو محسوس ہوا جیسے کار کچّی مٹی کو نہیں، اس کے سینے کو روندتی ہوئی گذرتی چلی جارہی ہو!