Sadiqua Nawab Saher

صادقہ نواب سحر

معروف فکشن نویس، حساس سماجی رشتوں کو موضوع بنانے کے لیے جانی جاتی ہیں۔

Well known fiction writer, acknowledged for her portrayal of sensitive social issues. She draws upon the issues of women in the Eastern societies.

صادقہ نواب سحر کے تمام مواد

2 غزل (Ghazal)

    تمہاری یاد میں ڈوبے کہاں کہاں سے گئے

    تمہاری یاد میں ڈوبے کہاں کہاں سے گئے ہم اپنے آپ سے بچھڑے کہ سب جہاں سے گئے نئی زمین کی خواہش میں ہم تو نکلے تھے زمین کیسی یہاں ہم تو آسماں سے گئے زمانے بھر کو سمیٹا تھا اپنے دامن میں پلٹ کے دیکھا تو خود اپنے ہی مکاں سے گئے یہ کھوٹے سکے ہیں الفاظ اس صدی کی سنو یہ ان کا دور نہیں یہ ...

    مزید پڑھیے

    دیوانگی جب حد سے گزر جائے تو کیا ہو

    دیوانگی جب حد سے گزر جائے تو کیا ہو الزام اگر تیرے بھی سر جائے تو کیا ہو دل یورش آلام سے ڈر جائے تو کیا ہو ساغر میں مری زیست اتر جائے تو کیا ہو ہو ساتھ کوئی ہے یہ جوانی کا تقاضہ یہ عمر بھی تنہا ہی گزر جائے تو کیا ہو دیوار نے ہر جرم کو پردے میں رکھا ہے دیوار کے بھی پار نظر جائے تو ...

    مزید پڑھیے

12 افسانہ (Story)

    ٹمٹماتے ہوئے دیے

    یہ علاقہ شہر کی ہلچل سے کچھ دور واقع تھا۔اِس ڈِیمڈ یونیورسِٹی میں کئی فیکلٹیز تھیں۔ کینٹین ایک طرف تھا، دوسری طرف ہاسٹل کی دو منزلہ عمارتیں ۔ چاروں طرف ہریالی ہی ہریالی تھی۔اُسی کے بیچ کچی پگڈنڈیاں تھیں جو سبھی عمارتوں کو آپس میں جوڑتی تھیں۔ پگڈنڈیوں کی لال مِٹّی پر سپرِنگ ...

    مزید پڑھیے

    شیشے کا دروازہ

    ’’اسٹیشن روڈ کی گلی میں ایک ورائٹی اسٹور میں ایک لڑکی کے لیے جاب ہے ۔‘‘، میری سہیلی شبانہ نے مجھے بتایا،’’ وہاں لڑکیاں بھی کام کرتی ہیں۔‘‘ جا کر دیکھا۔ یہ ایک بیس فٹ چوڑی اور سترہ فٹ لمبی دوکان تھی۔ دائیں طرف دوکان کی مالکن کا انگریزی کے ’ایل‘ کی شکل کا کانچ کا ٹیبل تھا۔ ...

    مزید پڑھیے

    پیج ندی کامچھیرا

    دھوپ چڑھے پیج ندی کے کنارے تھوڑے تھوڑے فاصلے پر دھوپ سے گہرائے گہرے سانولے رنگ کے مرد بارود کو آگ دِکھا کر ندی میں پھینک رہے تھے۔پَھٹ پَھٹ کی آوازیں آس پاس کے گاوؤں میں صاف سنائی دے رہی تھیں۔جمعرات کا دن تھا۔ مہادوُ آج ذرا دیر سے ندی پر پہنچا تھا۔وہ اپنے گاؤں کی ایک دوکان سے ...

    مزید پڑھیے

    پہاڑوں کے بادل

    ڈاکٹر راحین اپنی ڈسپنسری کا پرانا اسٹاک دیکھ رہی تھیں۔ وہ کچھ مہینوں بعد ایکسپائرہونے والی دوائیاں نکال کر الگ کر رہی تھیں۔ان کے ڈسپنسری کے اوقات صبح نو سے بارہ اور شام چھ سے آٹھ تھے۔اس وقت دوپہر کے بارہ بجے تھے۔شاید آج کا آخری مریض جا چکا تھایا شاید ابھی کوئی باقی ہو!تبھی ایک ...

    مزید پڑھیے

    اِکنامِکس

    دو دنوں کے بخار نے اسے نڈھال کر دیا تھا۔ تیسرے دن بھی وہ گھر سے باہر نہیں نکلالیکن شام کے وقت اس کے جی میں جانے کیا سمائی کہ بازار سے مٹھائی خرید لی اور اپنے خیر خواہوں سے ملنے چلا گیا۔دراصل عمارت کے اس منزلے پر شہلا کا گھر سب سے آخری تھا۔اختر ان کے پڑوس میں رہتا تھا۔شہلا کی امی ...

    مزید پڑھیے

تمام