بیگانۂ قیود بہار و خزاں رہے
بیگانۂ قیود بہار و خزاں رہے
یا رب مرا جنون محبت جواں رہے
یہ بھی سمجھ سکی ہے نہ اب تک نگاہ شوق
تم نے کہاں فریب دیا اور کہاں رہے
دنیا میں چاک دل کو نہیں پوچھتا کوئی
کیا جانے کتنے اہل جنوں بے نشاں رہے
اس انجمن میں ہم بھی پہنچ تو گئے مگر
جب تک رہے مزاج نظر پر گراں رہے
کیا کیا جفائیں کی ہیں ہر اک آرزو کے ساتھ
اور اس طرح کہ ان پہ وفا کا گماں رہے
اب یوں کرم نہ کر کہ بہ ایں وصف حسن و ناز
شاید تجھے بھی عشق کا سودا گراں رہے
لینے دے اپنا نام بھی مجھ کو کہ میرے بعد
تو بھی مری غزل کے سبب جاوداں رہے