بور آیا ہے کہ اک شوق نمو بولتا ہے
بور آیا ہے کہ اک شوق نمو بولتا ہے
گل پر جوش کی رگ رگ سے لہو بولتا ہے
کتنی شیرینی اتر آئی ہے لہجے میں مرے
میری آواز میں لگتا ہے کہ تو بولتا ہے
تیری خاموش نگاہی کے تکلم کی قسم
تو اگر چپ ہو تو اک عالم ہو بولتا ہے
کرنی پڑتی ہے بہت صوت و صدا پر محنت
تب کہیں جا کے ترنم میں گلو بولتا ہے
سل گیا چاک گریبان مگر بخیہ گرو
اب جو بازار میں نکلوں تو رفو بولتا ہے