عجب ستم ہے کہ تیرے حصے سے گھٹ رہا ہوں

عجب ستم ہے کہ تیرے حصے سے گھٹ رہا ہوں
میں تیرا ہو کر بھی اور لوگوں میں بٹ رہا ہوں


تو ایک سیل رواں کی صورت گزر رہا ہے
میں اک جزیرہ ہوں ہر کنارے سے کٹ رہا ہوں


کھلیں گے اسرار عشق عزلت نشینیوں میں
میں ایک دنیا سے ایک دل میں سمٹ رہا ہوں


اگر تجھے عشق تاش کا کھیل لگ رہا ہے
تو لے میں اپنے تمام پتے الٹ رہا ہوں


ازل ابد کے سبھی مسائل پہ بات ہوگی
ابھی تو اے زندگی میں تجھ سے نمٹ رہا ہوں


ستارے جوں جوں فلک سے معدوم ہو رہے ہیں
مجھے یہ لگتا ہے میں بھی منظر سے ہٹ رہا ہوں