بتاؤں کیا تمہیں کس بوجھ سے دبا ہوا ہوں
بتاؤں کیا تمہیں کس بوجھ سے دبا ہوا ہوں
میں اپنے نفس کی تہذیب میں لگا ہوا ہوں
بساط زیست اگرچہ بنی ہے میرے لئے
مگر پٹا ہوا مہرہ بھی میں بنا ہوا ہوں
یہاں نہ چھیڑ مرے دوست ذکر ماضی کو
ابھی تو لوگوں کی نظروں میں پارسا ہوا ہوں
ذرا سا صبر کھلیں گے مرے پر پرواز
نیا نیا قفس عشق سے رہا ہوا ہوں
کسی کے ہاتھ کے داؤ پہ ہوں رکھا ہوا میں
کسی کے خوابوں کی حد سے بھی ماورا ہوا ہوں
مجھے نہ چھیڑ خدا کے لیے نہ چھیڑ مجھے
گلے تلک میں سوالات سے بھرا ہوا ہوں
میں جانتا ہوں قمرؔ کیا مقام ہے میرا
یہاں بزرگ نہیں ہیں سو میں بڑا ہوا ہوں