بقا کی فکر کرو خود ہی زندگی کے لئے
بقا کی فکر کرو خود ہی زندگی کے لئے
زمانہ کچھ نہیں کرتا کبھی کسی کے لئے
نہیں ہے وقف اگر زندگی کسی کے لئے
تو ہر قدم پہ تباہی ہے آدمی کے لئے
کمال جب ہے کہ اس راہ میں چراغ جلاؤ
جو مدتوں سے ترستی ہے روشنی کے لئے
فریب شوق فریب نظر فریب خیال
ہزار دام ہیں اک ذوق آگہی کے لئے
تمہاری بزم میں کیا شکوۂ غم ہستی
یہاں تو سانس بھی نعمت ہے زندگی کے لئے
گلوں نے آگ لگا دی تمام گلشن میں
ذرا سی دیر کے لطف شگفتگی کے لئے
کوئی تو بات ترے آستاں میں ہے ورنہ
ہزار در تھے مرے ذوق بندگی کے لئے
وہاں ہواؤں کے رخ بھی نگاہ میں رکھنا
جہاں چراغ جلاتے ہو روشنی کے لئے
نہ جانے کتنی بہاروں کا خوں ہوا ہوگا
نگار خانۂ عالم کی دل کشی کے لئے
فروغ بادہ نہیں ہے حریف تشنہ لبی
کچھ اور لاؤ مرے ذوق مے کشی کے لئے
نگاہ برق ہے جب سے مرے چمن کی طرف
دعائیں مانگ رہا ہوں کلی کلی کے لئے
جو ان کے غم سے ہو نسبت تو ہر جہان میں کیفؔ
مسرتوں کا خزانہ ہے آدمی کے لئے