بنا کے چاروں طرف اک لکیر بیٹھا ہے

بنا کے چاروں طرف اک لکیر بیٹھا ہے
گھنے درخت کے نیچے فقیر بیٹھا ہے


کرے گا کون محبت یہاں دوبارہ دوست
فریب عشق کلیجہ کو چیر بیٹھا ہے


میں کیسے خود کو بچا پاتا تیری نظروں سے
بڑا سٹیک نشانے پہ تیر بیٹھا ہے


سبق کوئی نہیں دیتا دلوں کو جوڑنے کا
اسی ملال میں ڈوبا کبیر بیٹھا ہے


اٹھے گی کیسے صدائیں ستم گروں کے خلاف
ہر ایک شخص یہاں بے ضمیر بیٹھا ہے


کیا ہے کیوں اسے ناراض اپنی باتوں سے
وہ من مسوس کے کتنا ادھیر بیٹھا ہے


اسی کے ہاتھ پہ کرنی ہے عشق کی بیعت
مزار قیس سے لگ کر جو پیر بیٹھا ہے