بہت دنوں سے مجھے تیرا انتظار ہے آ جا

بہت دنوں سے مجھے تیرا انتظار ہے آ جا
اور اب تو خاص وہی موسم بہار ہے آ جا


کہاں یہ ہوش کہ اسلوب تازہ سے تجھے لکھوں
کہ روح تیرے لیے سخت بے قرار ہے آ جا


گزر چلی ہیں بہت غم کی شورشیں بھی حدوں سے
مگر ابھی تو ترا سب پہ اختیار ہے آ جا


وہ تیری یاد کہ اب تک سکون قلب تپاں تھی
تری قسم ہے کہ اب وہ بھی ناگوار ہے آ جا


غزل کے شکوے غزل کے معاملات جدا ہیں
مری ہی طرح سے تو بھی وفا شعار ہے آ جا


بدل رہا ہو زمانہ مگر جہان تمنا
ترے لیے تو ابد تک بھی سازگار ہے آ جا


ہزار طرح کے افکار دل کو روند رہے ہیں
مقابلے میں ترے رنج روزگار ہے آ جا