بہار آئے عنادل نے مل خروش کیا

بہار آئے عنادل نے مل خروش کیا
بدن میں خوں نے صراحی میں مے نے جوش کیا


زہے زہے میرے ایمان و دیں کہ میں نے انہیں
فدائے فرق خم و پائے مے فروش کیا


نقاب منہ سے اٹھا کر یہ کس نے دی آواز
کہ دفعتاً ہمہ تن مجھ کو چشم و گوش کیا


نکل گیا تھا لہو میرے تن کا رونے میں
رہا تھا جو کوئی قطرہ سو غم نے نوش کیا


کلام کیوں نہ ہو بیصبرؔ میرا مستانہ
کہ جام ہے خم حافظ سے میں نے نوش کیا