بال بال دنیا پر اس کا ہی اجارہ ہے

بال بال دنیا پر اس کا ہی اجارہ ہے
وقت خالی ہاتھوں سے ہم نے بھی گزارا ہے


کو بہ کو برستا ہے یم بہ یم ابلتا ہے
خون آدمیت سے نقش لا سنوارا ہے


لے چلو چراغوں کو کر کے خون سے روشن
دشت کی سیاہی نے ہم کو بھی پکارا ہے


زاد راہ کا ہم سے کیوں سوال کرتے ہو
رہزنوں کے نرغے میں جب ہمیں اتارا ہے


ہر نفس قفس میں ہوں کیسے مان لوں نقویؔ
اب کھلی فضائیں ہیں آسماں ہمارا ہے