زیر بام گنبد خضرا اذاں

زیر بام گنبد خضرا اذاں
وہ بلالی صوت وہ سامع کہاں


کھوجتا ہے ان گنت مسجود میں
قل ہو اللہ احد کا سائباں


بت تراشی چار سو ہے جلوہ گر
دے گئی سب کی جبینوں کو نشاں


یاسیت نے کرب کے در وا کئے
خشک امیدوں کا گلشن ہے یہاں


تو رہین خانہ ہائے اضطراب
اٹھ رہا ہے تیرے چلمن سے دھواں


ظلمتیں سایہ فگن ہیں ہر طرف
بام و در پر رقص میں نو میدیاں


رک ذرا پڑھ کلمۂ لا تقنطو
خود بخود روزن کھلیں گے درمیاں


حوصلوں کے پھر سے اگ آئیں گے پر
عزم محکم کو بنا لے سائباں