Ziaul Mustafa Turk

ضیاء المصطفیٰ ترک

ضیاء المصطفیٰ ترک کی غزل

    ان آنکھوں کی حیرت اور دبیز کروں

    ان آنکھوں کی حیرت اور دبیز کروں کیوں نہ تجھے بھی آئینہ تجویز کروں حرف نگفتہ بیچ میں حائل ہے کب سے باب سخن میں خاموشی تقریظ کروں فرصت شب میں تیرا دھیان آ جاتا ہے کنج چمن کیونکر گھر کی دہلیز کروں آنکھیں مند جائیں گی منظر بجھنے تک اس اثنا میں خواب کسے تفویض کروں

    مزید پڑھیے

    کسی سفر کسی اسباب سے علاقہ نہیں

    کسی سفر کسی اسباب سے علاقہ نہیں تمہارے بعد کسی خواب سے علاقہ نہیں ہمارے عہد کی دیوانگی ہمیں سے ہے ہمارے عصر کو مہتاب سے علاقہ نہیں مگر یہ خواب اگر خواب ہیں تو کیسے ہیں کہ جن کو دیدۂ بے خواب سے علاقہ نہیں ہر ایک ساز کو سازندگاں نہیں درکار بدن کو ضربت مضراب سے علاقہ نہیں

    مزید پڑھیے

    پھر اسی دھن میں اسی دھیان میں آ جاتا ہوں

    پھر اسی دھن میں اسی دھیان میں آ جاتا ہوں تجھے ملتا ہوں تو اوسان میں آ جاتا ہوں بے نشاں ہو رہوں جب تک تری آواز کے ساتھ پھر کسی لفظ سا امکان میں آ جاتا ہوں جسم سے جیسے تعلق نہیں رہتا کوئی بیشتر دیدۂ حیران میں آ جاتا ہوں شاخ گل سے جو ہوا ہاتھ ملاتی ہے کہیں اسی اثنا اسی دوران میں آ ...

    مزید پڑھیے

    طغیانی سے ڈر جاتا ہوں

    طغیانی سے ڈر جاتا ہوں جسم کے پار اتر جاتا ہوں آوازوں میں بہتے بہتے خاموشی سے مر جاتا ہوں بند ہی ملتا ہے دروازہ رات گئے جب گھر جاتا ہوں نیند ادھوری رہ جاتی ہے سوتے سوتے ڈر جاتا ہوں چاہے بعد میں مان بھی جاؤں پہلی بار مکر جاتا ہوں تھوڑی سی بارش ہوتی ہے کتنی جلدی بھر جاتا ...

    مزید پڑھیے

    میرے گریہ سے نہ آزار اٹھانے سے ہوا

    میرے گریہ سے نہ آزار اٹھانے سے ہوا فاصلہ طے نئی دیوار اٹھانے سے ہوا ورنہ یہ قصہ بھلا ختم کہاں ہونا تھا داستاں سے مرا کردار اٹھانے سے ہوا محمل ناز کی تاخیر کا یہ سارا فساد راہ افتادہ کو بیکار اٹھانے سے ہوا شاق گزرا ہے جو احباب کو وہ صدمہ بھی بزم میں مصرع تہہ دار اٹھانے سے ...

    مزید پڑھیے

    سکوت سے بھی سخن کو نکال لاتا ہوا

    سکوت سے بھی سخن کو نکال لاتا ہوا یہ میں ہوں لوح شکستہ سے لفظ اٹھاتا ہوا مکاں کی تنگی و تاریکی بیشتر تھی سو میں دیے جلاتا ہوا آئینے بناتا ہوا ترے غیاب کو موجود میں بدلتے ہوئے کبھی میں خود کو ترے نام سے بلاتا ہوا چراغ جلتے ہی اک شہر منکشف ہم پر اور اس کے بعد وہی شہر ڈوب جاتا ...

    مزید پڑھیے

    سورج نکلنے شام کے ڈھلنے میں آ رہوں

    سورج نکلنے شام کے ڈھلنے میں آ رہوں میں کیا عجب رتوں کے بدلنے میں آ رہوں بارش برسنے دھوپ کے کھلنے میں ہوں شریک شاخوں پہ کونپلوں کے نکلنے میں آ رہوں بہنے لگوں کناروں کو چھوتے ہوئے کہیں دریا کے لہر لہر مچلنے میں آ رہوں رک جاؤں ٹہنیوں کو بلا کر ذرا سی دیر پھر سے ہوا چلے تو میں چلنے ...

    مزید پڑھیے

    دنوں میں دن تھے شبوں میں شبیں پڑی ہوئی تھیں

    دنوں میں دن تھے شبوں میں شبیں پڑی ہوئی تھیں سبھی کہانیاں اک طاق میں پڑی ہوئی تھیں اذان گونجی تو محراب میں کوئی بھی نہ تھا بس ایک رحل پہ کچھ آیتیں پڑی ہوئی تھیں سنائی دیتا ہے اب بھی مقدس آگ کے گرد وہ لحن جس میں کئی حیرتیں پڑی ہوئی تھیں مجھے نوازا تو پیشانی پر لکھا اس نے وہ نام جس ...

    مزید پڑھیے

    رفاقت کی یہ خواہش کہہ رہی ہے

    رفاقت کی یہ خواہش کہہ رہی ہے کئی دن سے وہ مجھ میں رہ رہی ہے پکارا ہے کچھ ایسے نام میرا رگوں میں روشنی سی بہہ رہی ہے تعجب ہے کہ میری انگلیوں میں تری ہاتھوں کی خوشبو رہ رہی ہے سمجھ پایا نہیں پر سن رہا ہوں وہ سرگوشی میں کیا کیا کہہ رہی ہے تری خواہش کسی امکاں کی صورت ہمیشہ مجھ میں ...

    مزید پڑھیے

    نہ تھیں تو دور کہیں دھیان میں پڑی ہوئی تھیں

    نہ تھیں تو دور کہیں دھیان میں پڑی ہوئی تھیں تمام آیتیں امکان میں پڑی ہوئی تھیں کواڑ کھلنے سے پہلے ہی دن نکل آیا بشارتیں ابھی سامان میں پڑی ہوئی تھیں وہیں شکستہ قدمچوں پہ آگ روشن تھی وہیں روایتیں انجان میں پڑی ہوئی تھیں ہم اپنے آپ سے بھی ہم سخن نہ ہوتے تھے کہ ساری مشکلیں آسان ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2